Navigation

عوام، مہنگائی اور بے حس سیاستدان


کسی بھی ملک میں خانہ جنگی کی ایک اہم وجہ مہنگائی ہوتی ہے۔ پاکستان میں 75 سال سے ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے لیکن موجودہ حکومت کے 9 ماہ میں جو ریکارڈ مہنگائی ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

اگرچہ اس مہنگائی کی ایک بڑی وجہ گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیاں بھی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی عوام کو جو خواب دکھا کر آئے تھے، انہیں چکنا چور کردیا گیا ہے۔ ہم بری طرح سے آئی ایم ایف کے جال میں جکڑے جاچکے ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے اور قیمتیں مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو بھی پر لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔

آٹا، سبزی، گھی، دودھ سب ہی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ حکومت جہاں کوئی بہتر پالیسی نہیں بنا پارہی وہیں ملک میں موجود مافیا کے آگے بھی بے بس ہے۔ ملک میں دودھ 180 روپے سے 190روپے فی کلو تک فروخت کیا جارہا تھا کہ ڈیری فارمرز کی جانب سے دودھ کی قیمتوں میں مزید بیس روپے کے اضافے کا اعلان کردیا گیا۔ لہٰذا عوام نہ آٹا کھائیں، نہ سبزی خریدیں اور نہ ہی دودھ پیئیں۔ حال یہی رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہر طرف بھوک و افلاس کے سائے ہوں گے۔ ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد غربت کے عذاب سے دوچار ہے۔ مہنگائی کے بے قابو جن نے ملازمت پیشہ افراد کی کمر توڑ دی ہے۔ ایسا جہاں بھی ہو اس ریاست میں جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہی سب اب وطن عزیز میں بھی ہورہا ہے۔ جہاں بھوک ہو وہاں تہذیب نہیں رہتی۔ جسم فروشی عام ہورہی ہے، لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، کہیں فاقہ و افلاس اور کہیں چوری ڈکیتی، لیکن حکمران اس سب سے منہ موڑے ایک دوسرے پر الزام لگانے اور عیاشیوں میں مشغول ہیں۔

اس ملک کے ڈیری فارمز بھی اس وقت مکمل بے قابو ہیں۔ جب دل چاہے قیمتوں میں اضافہ کردیتے ہیں اور پھر اس اضافے کا ذمے دار حکومت کی پالیسیوں کو قرار دے کر پرسکون ہوجاتے ہیں۔ اس بار قیمتوں میں اضافے سے کراچی میں دودھ کی قیمت 210 روپے ہوگئی ہے۔ ڈیری فارمرز کا کہنا ہے کہ دودھ کی قیمت میں کمی کےلیے وفاقی ادارے سنجیدہ نہیں۔ اشیائے ضروریہ کو سستا کرنے کےلیے منسٹری آف کامرس اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ میں بیٹھے افراد درست فیصلے کریں تو اشیائے ضروریہ عوام کی قوت خرید میں آجائیں گی اور اگر اب بھی ڈیری و پولٹری سیکٹر کی ضرورت پوری کیے بغیر اجناس کے بائی پروڈکٹس کی ایکسپورٹ جاری رہے گی تو ہمارا انحصار امپورٹڈ اجناس پر ہی ہوگا، جس سے مہنگا دودھ، گوشت، مرغی اور انڈے پیدا ہوں گے اور اس ایکسپورٹ کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کا خمیازہ صارف ہی بھگتے گا۔

ڈیری فارمرز نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومتی پالیسی یہی رہی تو دودھ کی قیمتیں 300 روپے کلو تک بھی جاسکتی ہیں۔ ڈیری فارمرز کی اس ہٹ دھرمی سے جہاں عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں دودھ فروش بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اس بار ڈیری ریٹیلرز نے اس اضافے کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فارمرز قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں جس کے بعد ہماری سیل خراب ہوتی ہے اور ہمیں جرمانے اور گرفتاریاں بھگتنی پڑتی ہیں۔ عوام اگر کچھ عرصہ ہی ان مافیاز کا بائیکاٹ کردیں تو دیکھیں کیسے یہ راہ راست پر آتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عوام کو بیدار کرنے کےلیے بھی اب کوئی اقبال موجود نہیں اور نہ ہی ٹک ٹاک میں پھنسے عوام کے پاس بانگ درا پڑھنے کا وقت ہے۔

کسی بھی مسئلے کے متعلق تحقیقات کرنے کے بعد ایک سوال جو ہمیشہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس مسئلے کا حل ممکن ہے یا نہیں؟ تو یاد رکھیے دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو۔ اس وقت ملکی مسائل کا واحد حل اتحاد ہے۔ سیاستدان اپنی انا کی بھینٹ اس ملک کو چڑھانے سے گریز کریں۔ ملک میں انتخابات کرائے جائیں اور عوام کو اپنا حکمران چننے کا مکمل اختیار دیا جائے۔ انتخابات کے بعد سیاسی انتقام اور کارروائیوں سے گریز کرکے سب ایک میز پر بیٹھ کر ملکی مسائل کا حل تلاش کریں۔ ملک کے اخراجات کو کم کیا جائے، امپورٹ کو کم اور ایکسپورٹ کر بڑھایا جائے۔ ملک میں موجود مافیاز کو لگام دی جائے۔ عوام سے تعاون کی اپیل کی جائے اور سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ ملک میں کسان اور چھوٹے کاروبار کو مستحکم کیا جائے تاکہ ملازمتوں میں اضافہ ہو اور سب سے اہم یہ کہ مزید قرض لینے سے گریز کیا جائے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ ملک میں پیسہ آسکے۔

آنے والی ہر حکومت آئی ایم ایف سے معاہدوں اور بین الاقوامی برادری سے قرض لینے کو اپنی کامیابی قرار دیتی ہے اور ایسا کرنے کے بعد ان کے سامنے نظریں جھکا کر، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال کر، ملک گروی رکھوا کر بغلیں بجاتی ہے۔ کیا کبھی کوئی قرضوں میں ڈوبا ہوا فرد یا ملک بھی کامیاب ہوا ہے؟ یہ وقت اب قربانی کا ہے۔ ملک کے ہر فرد کو کم آمدنی میں گزارا کرنا ہوگا۔ اس ملک کی خاطر آسائشوں کو چھوڑنا ہوگا اور اگر عوام سے لے کر سیاستدانوں اور اہم اداروں تک ہر ایک کو اب اخراجات میں کمی لانا ہوگی، ورنہ شاید ہم بس تاریخ کے اوراق میں ہی باقی رہ جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Share

Post A Comment:

0 comments: