کلو سیم (COLESIUM) دائرہ کی شکل کی مہیب عمارت ہوتی تھی۔ رومن بادشاہ کوشش کرتے تھے کہ یہ خونی حلقہ شہر کے بالکل درمیان میں بنایا جائے۔
عمومی طور پر اس کی تین منزلیں ہوتی تھیں۔ بادشاہ اور خواص کے لیے شاہانہ بکس بنے ہوتے تھے۔ جہاں زندگی کی ہر سہولت موجود ہوتی تھی۔ بادشاہ کے غلام‘ خاصے کے ملازمین اس جگہ پر ہوتے تھے ۔ مگر انھیں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
اعلیٰ عہدیداران اسی بکس میں اپنے اپنے رتبہ کے حساب سے بیٹھتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے کلوسیم میں سیڑھیاں بنائی جاتی تھیں۔ وہاں ہزاروں لوگ موت کا کھیل دیکھنے کے لیے بڑے شوق سے آتے تھے۔ سب سے بڑے کلوسیم میں پچاس ہزار افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ نچلی منزل میں ہتھیار‘ خونی جانور‘ غلام اور لڑنے مرنے والے گلیڈیٹرز موجود ہوتے تھے۔
جانوروں میں خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ بھوکے ہوں اور جب انھیں میدان میں چھوڑا جائے‘ توسامنے والے انسان کو دبوچ کر کھا جائیں۔ ہتھیار بھی نچلی منزل میں رکھے جاتے تھے۔ روم میں پہلا کلوسیم 80 قبل مسیح میں بنایا گیا تھا۔ بادشاہ ‘ سال میں دس سے بارہ مرتبہ ‘ ان مقابلوں کا اہتمام کرتا تھا۔
جب گلیڈیٹرزکو مقابلہ کے لیے اتارا جاتا تھا ۔ تو یہ امر یقینی تھا کہ ان میں سے ایک ہی شخص زندہ رہے گا۔ وہ بھی اس قیمت پر کہ اسے اپنے مد مقابل کو قتل کرنا ہوتا تھا۔ جب تلوار بھالا یا خنجر ‘ مرنے والے انسان کے سینے میں اتارا جاتا تھا تو ہزاروں تماشائی جذبات میں آ کر تالیاں بجاتے تھے۔ انسانی خون کے بہنے پر حد درجہ مسرت کا اظہار کرتے تھے۔
جو لوگ‘ روم کے بادشاہ کے خلاف بغاوت میں ملوث ہوتے تھے ۔ انھیں بھی بے دست و پا‘ کلوسیم میں پھینک دیا جاتا تھا۔ ان پر بھوکے شیر‘ مہیب ریچھ اور دیگر خونی جانور چھوڑ دیے جاتے تھے۔ باغی جتنی تکلیف سے مرتا تھا۔ بادشاہ اور اس کے درباری اسی ترتیب سے خوشی مناتے تھے۔ جب لوگ مرتے وقت‘ چیخیں مارتے تھے اور لہولہان ہوتے تھے تو بادشاہ کی تسکین کو بڑھانے کے لیے جام لنڈھائے جاتے تھے۔ اس بھیانک کھیل میں ہزاروں لوگ مرتے تھے۔
اس گھناؤنے کھیل کو غور سے دیکھا جائے تو اس کے مقاصد مکمل طور پر سیاسی ہوتے تھے۔ جب رعایا میں غربت بڑھ جاتی تھی‘ روزگار کے مواقع حد درجہ محدود ہو جاتے تھے۔ خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں بغاوت نا ہو جائے۔ تو فی الفور ‘ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے گلیڈیٹرز کا خونی کھیل شروع کروا دیا جاتا تھا۔ مقصد صرف اور صرف سیاسی ہوتا تھا۔ کہ کسی طرح رعایا کا دھیان ‘ حکومت کی ناکامی سے ہٹاکر کھیل تماشے میں لگا دیا جائے۔
کچھ شہنشاہ تو ‘ کلوسیم میں بیٹھے لوگوں کو مفت کھانا بھی تقسیم کرتے تھے۔ تاکہ رعایا میں ان کی نیک نامی کے گیت گائے جائیں۔ اس طرح کا ظالمانہ کھیل دراصل ایک دیوار کا کردار ادا کرتا تھا تاکہ لوگوں کو حکومت کی ناکامیوں کا کچھ بھی پتا نہ چلے اور وہ کھیل تماشے میں مصروف رہیں۔ یہ حربہ اس وقت بھی کامیاب تھا اور حد درجہ بدقسمتی سے آج بھی کامیاب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کلوسیم نہیں بنائے گئے۔
گلیڈیٹرز کو ہتھیار بند کر کے عوام کے سامنے قتل و غارت میں مصروف کار نہیں رکھا گیا۔ عجیب حقیقت ہے کہ ہماری ہر حکومت عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بعینہ وہی ظالمانہ حربے استعمال کر تی ہے جو رومن بادشاہ کیا کرتے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ شاید پورے ملک کو کلوسیم بنا دیا گیا ہے اور بائیس کروڑ تماشائی یعنی عوام‘ موت ‘خون‘ خانہ جنگی کا ‘‘تفریحی‘‘ کھیل دیکھ رہے ہیں۔
عوام کی توجہ حددرجہ عیاری سے اصل مسائل سے ہٹانے کی ہمیشہ سے بھرپور اور کامیاب کوشش جاری رہتی ہیں۔ اس قبیح فعل میں ایک اور عنصر بھی پہلے کی طرح موجود ہے جس شخص کو اصل ’’مقاصد‘‘ کا علم ہو جاتا ہے۔
معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کیا جا رہاہے۔ تو اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یا اسے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کسی مغربی ملک میں جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر قتل و غارت کا یہ کھیل جو اصل میں اقتدار کا ہی کھیل ہے۔ بغیر کسی تردد کے جاری و ساری رہتا ہے۔
1947 سے لے کر اب تک کے معاملات اور واقعات پر بغیر کسی تعصب کے تنقیدی نظر ڈالیے تو تمام باتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ تقسیم برصغیر کے چند ماہ پہلے سے لے کر اگلے پانچ چھ ماہ کو غور سے پرکھیے۔ لاکھوں انسانوں کو صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ مسلمان ‘ ہندو‘ اور سکھوں نے جس المناک طریقے سے پنجاب اور متصل علاقوں کو ایک دوسرے کے خون ناحق سے رنگا‘ اس کا کسی قسم کا کوئی جواز نہیں تھا۔
کیا برطانوی حکومت جو اس وقت بھی سپر پاور تھی۔ اس کے لیے ممکن نہیں تھا کہ چودہ سے اٹھارہ لاکھ لوگوں کی ریاستی اداروں سے حفاظت کروا دیتے’ مگر صاحبان‘ ایسا بالکل نہیں کیا گیا۔
برطانوی حکومت کواندازہ تھا کہ وہ نفرت کے بیج اس طرح بوئیں گے کہ آنے والے وقت میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔ عرض کرونگا کہ یہ تمام قتل و غارت ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ دلیل یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو تو ہزاروں برس سے برصغیر میں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ رہے تھے۔ پھر ان کو لڑوانے کا کھیل‘ کلوسیم کی طرز پر کس نے کھیلا۔
لازم ہے کہ اقتدار تو برطانیہ کے پاس تھا۔ ماؤنٹ بیٹن ایک بادشاہ کی حیثیت سے ہم پر مسلط کیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ اس نفرت کی بدولت ہوا جو برطانوی سامراج نے حد درجہ عیاری سے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پیدا کی۔ اس کھیل میں حکومت نے ہر مذہب کے لوگوں کواپنے ساتھ ملایا اور پھر انھیں حلیف بنا کر پورے خطے کو انسانی خون میں غسل دلوا دیا۔
آپ جو مرضی کہیں۔ مگر برصغیر کی تقسیم میں اس وقت کی سرکار‘ بڑے آرام سے اس خون کی ہولی کوکنٹرول کر سکتی تھی۔ مگر ایسا بالکل نہیں کیا گیا۔ اور ہم لوگوںمیں نفرت کا وہ پیوند لگا دیا‘ جو آج تک زہر آلود پھل دے رہاہے۔
خدارا‘ اپنے حالات پر سنجیدگی سے غور فرمائیے۔ حکمران طبقے نے اپنی نااہلی ‘ غلاظتیں اور ناکامی چھپانے کے لیے ہر سطح پر عوام کے ذہن کو اپنے مطلب کے حساب سے ترتیب دے دیا ہے۔ درستی کتابوں سے لے کر ہر سطح پر کی تعلیمی فصیل پر‘ ایک مستقل قدغن لگا دی گئی ہے۔ آپ سوال نہیں پوچھ سکتے۔ پاکستان میں مقتدر طبقہ کبھی بھی تبدیل نہیں ہوا۔ ان کا احتساب ممکن ہی نہیں ہے۔
ذرا سوچیے۔ یہ دہشت گرد کیا ہمارے ریاستی اداروں نے بذات خود پیدا نہیں کیے۔ آج وہ اتنے توانا ہو چکے ہیں کہ ان سے مذاکرات کرنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ مذہب کو جہاد تک محدود کر کے ہم نے جو بیانیہ‘ روس کو ہرانے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ آج وہ ہمارے گلے پڑ چکاہے۔
چند ہفتے پہلے پاکستان کے چند علماء نے ایک فتویٰ جاری کیا کہ جہاد صرف اور صرف حکومت کی اجازت سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات بھی درست ہے۔ مگر اگلے ہی دن۔ ٹی ٹی پی نے اس کے مخالف فتویٰ دے ڈالا۔ جس میں انھوں نے پاکستان میں جہاد کو درست قرار دیا۔ خدا کے لیے معاملات کو سمجھئے۔ قتل وغارت کو ایک خاص منصوبہ بندی سے بڑھایا جا رہا ہے۔
کیا کسی حکومتی عہدے دار نے اپنے اللے تللے کم کیے ہیں؟ کیا آج بھی حکمران طبقے کی عیاشیاں جاری نہیں ہیں؟۔ کیا پاکستان جیسے غریب ملک کے وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر‘ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو سرکاری جہاز دینا واقعی مناسب فعل ہے؟ کیا تمام مقتدر طبقہ کو عوام کے پیسوں سے مراعات دینا درست ہے؟
دراصل ہمارا پورا ملک ایک کلوسیم بنادیا گیا ہے۔ یہ ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے اردگرد کوئی دیوار بھی نہیں ہے۔ یہ رومن کلوسیم کی مانند ہرگز نہیں ہے مگر اپنی اصل ہیئت میں بالکل اسی طرح کاہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر فروعی مسائل میں الجھا دی گئی ہے۔
قتل و غارت کی روایت بالکل جاری ہے۔ حکمران طبقہ ہر صورت میں اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے؟ عام آدمی کے لیے ہزاروں برس پہلے‘ روم میں نہ زندگی آسان تھی اور آج بھی حد درجہ مشکل ہے! مقتدر طبقہ مسائل کو بڑھانے میں مصروف ہے۔ کیونکہ اس میں اسی خونی کلوسیم کی بقا ہے!
Post A Comment:
0 comments: