کسی کو یاد ہے کہ تیس جنوری کو اس ملک میں کیا ہوا تھا ؟ پشاور کی پولیس لائنز کی انتہائی سیکیورٹی والی مسجد کے اندر خود کش دھماکا ہوا تھا جس کے سبب ایک سو دو لوگ جاں بحق اور ڈھائی سو سے تین سو نمازی زخمی ہوئے۔مرنے اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت پولیس اہل کاروں کی تھی۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ دسمبر دو ہزار چودہ میں اسی پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کی بن بلائی شہادت کے بعد کس طرح تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے ایک پیج پر اکھٹے ہوئے تھے اور پھردہشت گردی کی ’’ کمر توڑنے اورجڑ سے اکھاڑنے‘‘ کے بعد اسی پشاور میں اب سے بیس روز پہلے دوسری بڑی ریکارڈ توڑ واردات ہو گئی۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ جس طرح اے پی ایس سانحے کے بعد کوئی نیشنل ایکشن پلان بنا تھا۔اس پر جتنا جس نے بھی عمل کیا وہ تاریخ کا حصہ تک نہیں۔اسی طرح تین ہفتے قبل ہونے والے پولیس لائنز مسجد سانحے کے فوراً بعد حکومت نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تاکہ ایک اور نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوا جا سکے ؟
مگر ہوا کیا۔پہلے یہ کانفرنس سات فروری کو ہونا تھی ، پھر نو فروری کو ہونا تھی ، پھر وزیرِ اعظم کے مجوزہ دورہ ِ ترکی کے بعد ہونا تھی اور اب وہ کب ہوگی ؟ شاید کبھی نہ ہو گی اور ہو گی بھی تو آدھی ادھوری ہو گی اور آدھی ادھوری بھی ہو گی تو جو بھی لائحہ عمل طے کرے گی اس کا انجام بھی نیشنل ایکشن پلان جیسا ہو گا۔
لہٰذا کل جماعتی کانفرنس نہ بھی ہوئی یا ہو بھی گئی دونوں صورتوں میں کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا البتہ دہشت گردوں کے حوصلے ضرور سنوریں گے یہ سوچ سوچ کہ ان کا دشمن کس قدر کنفیوز اور اندر سے کس قدر کچا ہو چکا ہے۔
قسمت تو کسی بھی جگہ کی کبھی بھی اچھی یا خراب ہو سکتی ہے مگر جن علاقوں یا صوبوں کی حد کسی دوسرے ملک سے مل رہی ہو ان کی قسمت کا ستارہ اکثر ڈگمگاتا ہی رہتا ہے۔
اگر بلوچستان بالخصوص خیبر پختون خوا کی مثال ہی لے لی جائے تو پچھلے پینتالیس برس سے شاید ہی کوئی برس بدامنی کی کسی بڑی واردات کے بغیر گذرا ہو۔
جب دسمبر انیس سو اناسی میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تب سے یہ دونوں صوبے ہاتھیوں کی لڑائی میں کچلے جاتے رہے ہیں اور آج تک جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا پناہ گزیں کیمپ خیبر پختون خوا بنا ہوا ہے۔جب نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا تب بھی خیبر پختون خوا فٹ بال بنا اور امریکا کے جانے کے بعد بھی اس کی قسمت کسی دستی بم کی پن سے لٹک رہی ہے۔
چار عشروں کا رونا نہ بھی روئیں تب بھی صرف پچھلے تین مہینے میں یہاں سو سے زائد دہشت گرد وارداتیں ہو چکی ہیں۔اب تو یوں لگتا ہے کہ پنجاب اور نصف سندھ چھوڑ کے باقی پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی لیبارٹری ہے جس میں ہر طرح کا کیمیکل اور گیس ایک دوسرے سے ملا کے دیکھا جاتا ہے کہ دیکھیں اب کیا بنتا ہے۔
افغان سرحد سے لگے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی تجربہ گاہ میں پچھلی دو تین پیڑھیوں سے جاری عجیب و غریب تجربوں کے نتیجے میں کلاشنکوف کلچر، جہادی مدرسے ، منشیات کا بازار ، دوست مجاہدین ، پھر دوست طالبان اور پھر کیمیکل ری ایکشن کے سبب یہی دوست دشمن میں بدل گئے۔مگر ہمارے لال بجھکڑ اور افلاطون آج بھی غلطی ماننے یا خود کو سدھارنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں۔
دسمبر دو ہزار چودہ میں پشاور اے پی ایس کا قتلِ عام کیسے اور کس کی مدد سے ہوا ، سیکیورٹی کی خرابی کا ذمے دار کون تھا اور پاکستانی تاریخ میں دہشت گردی کی اس سب سے بڑی خونی واردات سے کیا کیا سبق لیا گیا اور پھر پورے انتظامی و فیصلہ جاتی ڈھانچے میں کیا کیا اصلاحات لائی گئیں۔اس بارے میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا۔
اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ سازوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کی اور دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے ہر مرحلے اور ہر شعبے کی خامیاں دور کرنے کی خاطر بیس نکاتی ایجنڈہ بھی تیار ہوا۔مگر پھر یہ ایجنڈہ وقت کی چتا میں آہستہ آہستہ جل گیا۔
جنھیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت جڑ سے اکھاڑنا مقصود تھا انھیں ہی جڑوں میں پھر سے بٹھا لیا گیا۔اس حوالے سے کون کس سے ہاتھ ملا رہا ہے، کس کے کندھے پر کس کا ہاتھ ہے ، پارلیمنٹ کے پیٹھ پیچھے کیا ہو رہا ہے ، بلکہ اصل میں ہو کیا رہا ہے اور بتایا کیا جا رہا ہے۔
کیا اس پلان کے تحت متعلقہ اداروں کو ان کا اصل کام یاد دلایا گیا ؟ کیا مدرسوں اور اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے نصاب یا اسے پڑھانے والوں کے دماغوں میں کوئی تبدیلی آئی ، یا پولیس اور عدلیہ کے نظام میں کوئی دوررس اصلاح ؟
دہشت گردی سے نپٹنے کے نام پر جو کروڑوں ڈالر ملے انھیں دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا یا کہیں اور لگا دیا گیا۔اور کہیں اور سب کا سب لگا دیا گیا۔ ثبوت یہ ہے کہ آج بھی ہم آئی ایم ایف کے سامنے ویسے ہی ہاتھ باندھے کھڑے ہیں جیسے نائن الیون سے پہلے کھڑے تھے۔
ان سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں۔ اور اس چپ کا نتیجہ تیس جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ایک بار سب نے دیکھ لیا۔یہ واقعہ اتنی تیزی سے ذہنوں سے محو ہوا گویا بیس دن پہلے نہیں بیس برس پہلے کی بات ہے۔
مگر پیارے دوستو۔کسی کو ذرا بھی پریشان ہونے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ہمارے لال بجھکڑ پہلے کی طرح کپڑے جھاڑ کے یہ کہتے ہوئے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ چیونٹی مری چیونٹی مری۔ کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے ، قابو میں ہے ، بہترین ہے ، نہیں چھوڑیں گے ، یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے ، وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Post A Comment:
0 comments: