Navigation

توانائی کی کمی اور مہنگائی

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیرصدارت اگلے روز قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے شرکاء کو ملک میں شمسی اور ہوا سے توانائی کی موجودہ استعداد، تعطل کا شکار منصوبوں اور اس حوالے سے پیش رفت سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔

اس موقع پر وزیراعظم نے متعلقہ ادارے کو فوری طور پر شمسی اور حرکی توانائی کی استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے کی ہدایت کی تاکہ شمسی اورہوا کی توانائی کے منصوبوں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔وزیراعظم نے کہاکہ قابلِ تجدید ذرائع سے کم لاگت اور ماحول دوست بجلی پیدا ہوگی۔

پاکستان میں توانائی کے بحران کو دیکھا جائے تو شمسی اور پن بجلی کے ذرائع کو ترقی دینا بہت ضروری ہے‘ اس کے علاوہ متبادل انرجی کے ذرائع کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے تو اس سے پاکستان توانائی میں خود کفیل بھی ہو گا اور یہ توانائی سستی بھی ہو گی۔

دنیا میں گرین انرجی پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے‘ تھرمل اور کوئلے وغیرہ سے جو بجلی پیدا کی جا رہی ہے‘ اس کی لاگت بھی بہت زیادہ ہے اور وہ ماحول دوست بھی نہیں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان توانائی کے بحران کا بھی شکار ہے اور گردشی قرضوں کا بوجھ بھی اترنے کا نام نہیں لے رہا‘ توانائی کے بغیر کسی ملک کی ترقی نہ ممکن ہے۔

پاکستان کو پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں‘ ملک میں پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی موٹر وہیکلز فضا میں آلودگی پیدا کرنے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہاز بھی فضائی آلودگی پھیلانے میں سرفہرست ہیں۔

دنیا میں متبادل انرجی پر تحقیق ہو رہی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں متبادل انرجی کو استعمال میں لایا بھی جا رہا ہے‘ ترقی یافتہ ممالک نے پٹرول اور ڈیزل کے بجائے الیکٹرک موٹر وہیکلز لانچ کی جا رہی ہیں۔

پاکستان کو بھی اس حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان میں اگر الیکٹرک موٹر وہیکلز کو استعمال میں لایا جاتا ہے تو انھیں بجلی ملنا بھی مشکل ہو گا۔جب تک ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھتی نہیں اور اس کا ٹرانسمیشن سسٹم درست نہیں ہوتا اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا۔

آج ملک میں جہاں ڈالر اور سونے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے ، اشیائے ضروریہ کی مہنگائی نے متوسط اور غریب طبقے کی کمر توڑ دی ہے،برائلر مرغی کا گوشت سب سے سستا ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ بھی غریب طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہوچکا ہے۔

کراچی،اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور میںبرائلر مرغی کی فی کلو گرام قیمت 700 کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ادھر کھلی چائے کی پتی کی قیمت گزشتہ 15 روز میں گیارہ سو روپے سے بڑھ کر 16 سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔

تاجر حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ رمضان میں چائے کی قیمت 2500 روپے فی کلوگرام تک پہنچ سکتی ہے۔سبزیاں اور پھل بھی روزانہ کی بنیاد پر مہنگے ہو رہے ہیں‘ گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی دودھ اور دہی بھی مہنگی ہو جائے گی۔ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا چلن جاری ہے۔ ایسی صورتحال میں عوام کو جس ریلیف کی ضرورت ہے۔

وہ ریلیف ملنے کی توقع کم ہی نظر آ رہی ہے ۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں اور اس کے اثرات بدستور گہرے ہوتے جا رہے ہیں ‘ گندم اور دیگر اجناس کی قلت کی وجہ یہی ہے کہ سیلاب نے زرعی زمینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان کو خوراک اور توانائی کی مہنگائی کا مسئلہ درپیش ہے، ہمارے ہاں خوراک کی طلب اور رسد کے اپنے مسائل ہیں ، خوراک کی پیداوارکی بے یقینی کا مسئلہ‘ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور بیج کی بروقت اور سستے داموں فراہمی نایاب ہے۔

اس کے علاوہ ناقص بیج اور ملاوٹ شدہ زرعی ادویات بھی زرعی پیداوار پر اثرانداز ہو رہی ہیں ‘ اس سلسلے میں بہت سی شکایات موصول ہوتی ہیں مگرانتظامی سطح پر اس معاملے پربروقت اور بھرپور کارروائی نہ ہونے سے بھی کاشتکاروں کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری خوراک کی پیداوار پر موسمی حالات اثر انداز ہوتے ہیں اگر موسم موافق رہے تو پیداوار ضرورت سے زائد بھی ہو سکتی ہے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں خوراک کی پیداوار کے محکمے اور اس کا انتظام دیانتدار اور معاملہ فہم افراد کے ہاتھوں میں نہیں، اہداف کا تعین اور پیداوار کا تخمینہ باقاعدہ مطالعے اور تحقیق کے بجائے اندازوں پر لگائے جاتے ہیں جس کے باعث یہ اندازے عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں اور ملک میں خوراک کی کسی نہ کسی شے کا بحران سال بھر رہتا ہے۔

اگر سائنسی بنیادوں پر معاملات سے نمٹا جائے تو روایتی اندازوں سے ہونے والی غلطیاں اور کوتاہیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو جدید سائنسی ٹیکنیک کی تربیت دی جائے اور ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں ہونے والی تحقیق سے فائدہ اٹھایا جائے۔

لیکن ایک اور مسئلہ منصوبہ بندی کے ساتھ اشیاء کا بحران پیدا کرنا بھی ہے جس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر‘ سبزی‘ آٹا اور خاص طور پر چینی کی نایابی معمول بن جاتی ہے۔

پاکستان میں چینی اور دیگر زرعی اجناس کی کمی نہیں مگر محکمانہ بددیانتی کے علاوہ پاکستان کے شہروں میں اجناس کی منڈی کا میکنزم آڑھتیوں کے کنٹرول میں ہے جس کے نتیجے میں کسان ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے ۔ منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی، یوں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام نہیں ہوتا۔پاکستان میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جس کے ریٹ میں گزشتہ ایک سال کے دوران کم از کم دو گنا اضافہ نہیں ہوا۔

ایسا ہو سکتا ہے کہ درآمد شدہ مال کی ترسیل میں مشکلات ہوں لیکن مارکیٹ جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سوئی سے گاڑی تک تو ہر چیز باہر سے آ رہی ہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کی مارکیٹ میں ’’ میڈ ان پاکستان‘‘ کچھ بھی نہیں اور جو ہے اس کی قیمتیں بھی ا س لیے زیادہ مانگی جاتی ہیں کہ خام مال نہیں مل رہا۔ اس وقت بنیادی ضروریات زند گی آٹا ، گھی ، چینی ، ہی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جا چُکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران جانتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ ذخیرہ اندوز کیسے کام کرتے ہیں؟ وہ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کیسے کرتے ہیں؟ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے۔

جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے سو گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔ بجلی کا جو بلب 50 روپے کا درآمد کیا جاتا ہے وہ صارف کو 250 روپے میں ملتا ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو مارکیٹ اکانومی کی مبادیات کابغورجائزہ لینا چاہیے۔مارکیٹ اکانومی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاست خاموش تماشائی بنی رہی اور مارکیٹ اکانومی پرنجی شعبے کا مکمل کنٹرول ہو،مارکیٹ اکانومی کے سب سے بڑے علمبردار مغربی ممالک میں بھی ریاست مارکیٹ کو مستحکم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

برطانیہ جیسے ملک میں ٹرانسپورٹ کا سسٹم ریاست چلاتی ہے اور بھی کئی شعبے میں جو ریاست کی ملکیت ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے ریاست کو متحرک کردار بھی ادا کرنا ہے۔

اس مقصد کے لیے اس کنٹرولڈ معیشت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، طب وصحت ‘ٹرانسپورٹ اور ایجوکیشن کے شعبوں میں ریاست کو نجی شعبے کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔سرکاری اسپتالوں اورمیونسپلٹی کے زیراہتمام چلنے والی ڈسپنسریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے‘ یہاں کام کرنے والے ڈاکٹرز ‘نرسزاور ٹیکنیشنز سمیت دیگر ملازمین کی تنخواہیں بہتر ہونی چاہئیں۔سرکاری اسپتالوں اور میونسپلٹی کی ڈسپنسریوںکی تعمیر و مرمت پر توجہ ہونی چاہیے۔

یہاں طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے تونجی اسپتال وغیرہ خود بخود بے جا لوٹ مار سے باز آ جائیں گے۔اسی طرح سرکاری یونیورسٹیوں‘ کالجوں ‘ہائی اور پرائمری اسکولوں اور ان کے اساتذہ پر توجہ دی جائے تو نجی شعبے کے تعلیمی ادارے بھی اپنی فیسیں کم کر دیں گے۔

بھارت میں عام آدمی پارٹی نے ایسا کر کے دکھایا ہے ‘دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے سرکاری اسکولوں کی حالت کو اتنا بہتر بنا دیا ہے کہ نجی اسکولوں کو اپنی فیسیں کم کرنا پڑ گئی ہیں۔

مشرقی پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرتے ہوئے 300یونٹ بجلی فری کر دی ہے ‘ان 300یونٹ کی قیمت مشرقی پنجاب کی صوبائی حکومت ادا کرتی ہے‘دہلی میں بجلی مکمل فری ہے ‘اگر وہاں ایسا ہو سکتا ہے تو پاکستان میں بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔

Share

Post A Comment:

0 comments: