Navigation

دہشت گردی کا سیاسی المیہ


دہشت گردی ایک قومی مسئلہ ہے۔ اس کے تانے بانے ہماری علاقائی اور خارجہ پالیسی سے جوڑ کر دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ تمام معاملات کا جائزہ لے کر ہی ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔31جنوری کو ہونے والے پشاور سانحہ یا دہشت گردی نے ایک بار پھر ہمیں قومی سطح پر جنجھوڑا ہے ۔ اداروں کی کارکردگی یا صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

ان ہی سوالات میں ہماری داخلی، علاقائی یا خارجہ پالیسی سے جڑے مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے ۔ کیونکہ اول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم دہشت گردی کی اس جنگ سے نمٹنے کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں ۔

دوئم ہم محاذ آرائی کی سیاست میں اس حد تک الجھ گئے ہیں کہ ہمیں قومی سیکیورٹی سے جڑے معاملات میں دلچسپی نہیں ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر دہشت گردوں نے ہماری داخلی سیاست میں موجود لڑائی یا جو خلا موجود ہے اس کا فائدہ اٹھا کر خود کو منظم کیا ۔

ہم نے دہشت گردی یا دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایک سے زیادہ بار پالیسیاں یا قانون سازی سمیت اداروں کی تشکیل نو بھی کی ہیں لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کی ترجیحات میں ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ابہام ، تضاد اور ٹکراو کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔

اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت ہے ۔ ایسی قیادت جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرے بلکہ دیگر تمام فریقین کو ساتھ ملانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

جب ہم نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی ترتیب دی، اس پالیسی میں ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ لیکن اس پالیسی پر سنجیدگی سے عمل درآمد کی بجائے ہم نے خود کو سیاسی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔

سیاست میں موجود سیاسی تلخیوں ، ٹکراو اور سیاسی دشمنی یا نفرت کے کھیل میں ہم نے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے معاملات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک انتظامی نوعیت کے اقدامات ہیں جو بالخصوص ہماری انٹیلی جنس اداروں ، پولیس اور فوج کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ ان معاملات میں ہم نے کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ۔ لیکن سیاسی قیادت نے عدالتی اصلاحات، مدارس اورتعلیمی اصلاحات، نیکٹا سمیت دیگر اداروں کی فعالیت ،دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دینے پر توجہ نہیں دی ۔

مسئلہ محض الزام تراشی کا نہیں یا سیاسی قیادت کے خلاف ماتم کرنا نہیں بلکہ اس بات کا تجزیہ کرنا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کیونکر ان بڑے مسائل میں غفلت کا شکار ہوئی ہے۔ سیاسی قیادت کا یہ کہنا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا مسئلہ ہمارا نہیں بلکہ یہ عسکری قیادت کا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف اپنے کارکنوں کی ذہنی تربیت کیوں نہیں کی ۔ سیاسی قیادت عسکری فورم پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں مگر باہر نکل کر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔

اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں ڈھلمل پالیسی یا دوہری پالیسی ہمارے مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔ افغانستان سے ہمارے معاملات دہشت گردوں کے حوالے سے بھی تنقید کے زمرے میں آتے ہیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے اور باقاعدہ ذمے داری قبول کرتی لیکن افغان طالبان حکومت کا رویہ ہماری توقعات کے برعکس ہے۔ یہ نقطہ کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی مگر اس پر عملدرآمد کا فقدان غالب ہے ۔

دہشت گردی سے جڑے معاملات سے نمٹنے کے لیے ہمیںجو لانگ ٹرم یا مڈٹرم یا شارٹ ٹرم پالیسی یا روڈ میپ درکار ہے اس کو اپنائے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

ہمار ی خارجہ پالیسی میں اس کمزوری کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ جو کچھ دوحہ مزاکرات میں امریکا اور افغان طالبان میں طے ہوا اور پاکستان کی سیکیورٹی پر بھی جو وہاں کمٹمنٹ ہوئی اس پر کیونکر عمل نہیں ہوسکا کی جوابدہی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔

یہ جنگ ریاست کی جنگ ہے اور ریاست میں موجود ہر فرد یا ادارے کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس جنگ کی ملکیت لیں۔ جنگ سے لڑنے کی حکمت عملی میں دوہرے معیارات کے ساتھ یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی ۔

ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لفاظی پر مبنی بیانیہ ، خوش نما نعرے ، مصنوعی سطح کے اقدامات یادنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے کچھ واقعی کرکے دکھانا ہے ۔دہشت گردی سے نمٹنے کی جنگ میں دنیا اور خود ملکی سطح پر اہل دانش کی سطح پر سوالات موجود ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کیسے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں ہمارا ملک عملی طور پر ’’غیر معمولی حالات ‘‘سے گزررہا ہے اور ایسے میں ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ’’غیر معمولی اقدامات ‘‘درکار ہیں۔

لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا او رکیسے ریاست اور حکومت سمیت ادارے خود کو جوابدہ بنائیں گے اور ساتھ دوسروں کو بھی جوابدہ بنایا جائے گا۔لیکن کیا یہ سب کچھ ہم کرسکیں گے خو دایک بڑا سوال ہے او راس کا جواب ہمیں شفافیت کی بنیاد پر ملنا چاہیے ۔

Share

Post A Comment:

0 comments: