محسن نقوی کی بطور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب تعیناتی کے بعد پی ٹی آئی لیڈران کی جانب سے اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس تعیناتی کے خلاف بھرپور مہم چلائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی محسن نقوی کو بطور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا کہ ’وہ ہمیں ن لیگ سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے والے شخص ہیں۔‘
نرگسیت کے شکار شخص کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو بات اس کی پسند یا مزاج کے خلاف ہو، وہ اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ بعض نفسیات دانوں کے مطابق یہ ایک بیماری ہے اور یہ کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی شاید اسی بیماری کا شکار لگتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی انا کی تسکین کےلیے جو پاکستان کا حال کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے اور اب بلاجواز انھوں نے محسن نقوی کی تعیناتی پر بھی اعتراض اٹھا دیا ہے۔
محسن نقوی کون ہیں؟ محسن نقوی ایک جانب ق لیگ کے چوہدریوں کے رشتے دار ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے آصف زرداری انہیں اپنا بچہ کہتے ہیں اور تیسری جانب مسلم لیگ ن ان کے ساتھ کمفرٹیبل ہے۔ پی ٹی آئی کے علاوہ کسی جماعت کو ان سے کوئی خاص مسئلہ بھی نہیں ہے۔ محسن نقوی کے جنرل باجوہ سے بھی اچھے تعلقات رہے ہیں۔ عمران خان، محسن نقوی کی مخالفت صرف اپنی فطرت کی وجہ سے کررہے ہیں۔ ان کی فطرت ہے کہ جو بھی ان کے ساتھ اچھائی کرے گا، بھلا کرے گا، خان صاحب وقت کے بعد پلٹ کر اس پر وار لازمی کریں گے۔ اب جب ایک سینئر صحافی سے یہ علم ہوا کہ 2018 کے بعد جہانگیر ترین نے محسن نقوی کے گھر بیٹھ کر چوہدری برادران اور تحریک انصاف کا تعلق بنایا تھا تو مجھے تسلی ہوگئی کہ خان صاحب نے محسن نقوی کا بھی احسان نہیں رکھا، انہوں نے وہ بھی اتار دیا ہے۔ یہ بھی قیاس ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کی ابتدائی شکل محسن نقوی کے گھر میں ہی ہوئی تھی کہ یہاں ہی دو بڑے آپس میں ملاقات کرکے معاملات کو آگے بڑھاتے تھے۔
عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ محسن نقوی نے ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی تھی۔ ان کے بقول آئی بی نے انہیں محسن نقوی کی سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ بھی دی تھی۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ محسن نقوی ان تمام لوگوں کو لے کر آئیں گے جو ہمارے سخت مخالف ہوں گے۔ پی ٹی آئی کا یہ اعتراض اپنی جگہ ہے کہ محسن نقوی اثرانداز ہوسکتے ہیں یا نہیں ہوسکتے، بنیادی سوال یہی ہے کہ عمران خان نے کیئر ٹیکر چیف منسٹر کےلیے سنجیدہ نام کیوں نہیں بھیجے؟ میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ تحریک انصاف نے بغیر سوچے سمجھے نام بھیجے ہوں گے۔ لیکن اگر انہیں بھی علم تھا کہ یہ تینوں نام ہی فارغ ہوجائیں گے تو انہوں نے پھر یہ میدان پی ڈی ایم کےلیے کھلا کیوں چھوڑا؟ اب ظاہر ہے کہ اگر آپ کے نام مسترد ہوں گے تو اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم کے نام ہی الیکشن کمیشن قبول کرے گا۔
عمران خان کیوں اپنی پسند کا نگراں وزیراعلیٰ چاہتے ہیں؟ اپنے وزیراعلیٰ سے اسمبلی تڑوا کر، انہیں نگراں بھی اپنا بندہ چاہیے؟ نگراں وزیراعلیٰ کے چناؤ کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے۔ پہلے مرحلے میں حکومت اور اپوزیشن نے ایک نام پر متفق ہونا ہوتا ہے۔ اگر مقررہ وقت میں وہ یہ نہ کرسکیں تو پھر یہ کام پارلیمانی کمیٹی کرتی ہے اور اگر وہ بھی مقررہ وقت میں ناکام رہے تو پھر تیسرے مرحلے میں تمام نام الیکشن کمیشن کے پاس جاتے ہیں اور وہ ان میں سے ایک نام کا فیصلہ 48 گھنٹوں میں کرنا ہوتا ہے۔ عمران خان نے پہلے اسمبلیاں توڑیں، پھر جو نام پی ٹی آئی نے دیے تھے، ان میں سے ایک نے معذرت کرلی، دوسرے صاحب سرکاری ملازم ہیں اور وہ نگراں وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے، تیسرے صاحب برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں، یہ بھی نگراں وزارت اعلیٰ کےلیے کوالیفائی نہیں کرتے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم نے جو نام دیے تھے، ان میں سے کوئی ایک بھی منصب سنبھالتا تو وہ اس کے ساتھ کمفرٹیبل تھے، بالکل ویسے ہی جیسے آپ اپنے ناموں کے ساتھ کمفرٹیبل تھے۔ آپ نے پانی سر سے گزر جانے کے بعد آخری نام دیا تھا اور وہ مسترد کیا گیا۔ پی ڈی ایم نے احد چیمہ اور محسن نقوی کا نام دیا۔ ان میں سے محسن نقوی کا انتخاب ہوگیا۔ آئین کے مطابق اب آپ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کرسکتے۔ تو اب آپ سپریم کورٹ کیا کرنے جارہے ہیں؟
خاں صاحب کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ محسن نقوی اب اپنی مرضی کے بندے تعینات کریں گے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن یہ اختیار تو نگراں وزیراعلیٰ کو آئین نے دیا ہوا ہے۔ اگر محسن نقوی ایسا نہیں کرتے ہیں تو کیا پھر الیکشن اُن افسران کے زیر انتظام ہو جو تحریک انصاف کی حکومت لگا کر گئی ہے؟ کیا یہ پی ڈی ایم کو قبول ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ یعنی یہ ڈیمانڈ بھی منطقی نہیں ہے۔ نگراں وزیراعلیٰ افسران کے تقرر اور تبادلے اسی لیے کرتا ہے کہ اپوزیشن کے اعتراضات نہ رہ جائیں۔
بالکل سادہ سی بات ہے کہ وہ وقت ختم ہوگیا جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ اب سب کچھ تحریک انصاف کی مرضی اور پسند ناپسند کے مطابق نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف نے جو کرنا تھا، وہ مارچ 2022 تک کرچکی ہے۔ جو باتیں آج عمران خان کررہے ہیں، وہ دلیل سے بہت دور ہیں۔ جلد الیکشن کی چاہ بھی ملک کےلیے ہرگز نہیں ہے، یہ اپنی انا اور اپنے اقتدار کےلیے ہے۔ مجھے یہ دلیل بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں توڑ کر قومی اسمبلی میں واپسی کیوں؟ مجھے یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک کا ستیاناس کرنے والی تحریک انصاف اور اب جب نتائج آرہے تو سسٹم ہی مفلوج کیوں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ جیسے ہی ملک کےلیے کوئی خیر کی خبر آتی ہے تو تحریک انصاف فوری اس دودھ کے پیالے میں مینگنیاں کرتی ہے؟ سسٹم کو مفلوج کرنے کا مقصد کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ ملک کی کشتی ایک منجھدار میں ہے، ملاح باہمی لڑائی میں مصروف ہیں، نتیجہ کیا نکلے گا؟ خدا کوئی معجزہ کردے کیونکہ سفینہ تو ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے۔
نوٹ: اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post A Comment:
0 comments: