ویسے تو ہمارا ملک ہمیشہ سے ہی نازک دور سے گذرتا رہا ہے ، لیکن آج وہ جن حالات سے گذر رہا ہے ایسے حالات سے پہلے کبھی نہیں گذرا۔ ہماری اس حالت اور درگت کا ذمے دار کون ہے ، اس کا تعین کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
ہمیں اپنے غیر ملکی دشمنوں سے اپنی بھلائی کی کوئی اُمید نہیں ہے لیکن جن اندرونی دشمنوں نے ہمیں اس حال میں پہنچایا ہے ان کی پہچان تو کم از کم ہم کرسکتے ہیں۔
صرف سیاستدانوں کو اس کا ذمے دار قرار دینا کوئی مناسب بات اور رویہ نہیں ہے۔ سیاستدان تو سازشی کرداروں کے مہرے بنتے رہے ہیں۔ اصل ملزم اور مجرم تو کوئی اور ہی ہیں۔
پاکستان کے معرض وجود میں آجانے سے لے کر آج تک ہمیں کبھی بھی ترقی کرنے نہیں دی گئی۔ ہمارے بیرونی دشمنوں کو ہمارا اسلامی تشخص ایک آنکھ نہیں بھایا اور پہلے دن سے وہ ہماری بربادی اور تباہی کا سامان کرنے لگے۔
ہماری نسبت بھارت کے لیے اس کی ترقی اور خوشحالی میں ایسی کوئی بھی رکاوٹ نہیں رہی۔ ہماری جغرافیائی حیثیت نے بھی ہمارے لیے کچھ مشکلات پیدا کیں۔
عالمی طاقتوں کی نظروں میں ہماری یہ جغرافیائی حیثیت بہت اہمیت کی حامل رہی ہے ، وہ آج بھی ہمیں خود مختار اور خود انحصار ہونے نہیں دیتی ہیں۔ ہمیں اپنا غلام اور تابع رکھ کر ، ہم پر قدغنیں اور پابندیاں لگا کر ، ہمیں مالی مشکلات میں ڈال کر اپنے فیصلے منوانے کے لیے وہ ہمیں ہمیشہ کمزور اور غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کچھ ادارے اِن عالمی طاقتوں کے منصوبوں پر عمل درآمد میں معاون اور مددگار رہے ہیں۔ ہمارا ملک جب بھی ترقی و خوشحالی کی راہ پر چلنے لگتا ہے ، ہمارے اداروں کے کچھ لوگ اِن عالمی طاقتوں کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے لگتے ہیں۔
ہر دو ڈھائی سال بعد جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا جانا بھی ہماری اس حالت کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ کہنے کو مسلم لیگ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ 1985 سے آج تک وہ کسی نہ کسی شکل میں بر سر اقتدار رہی ہے۔
اِن تیس پینتیس سالوں میں اُسے جب بھی اقتدار ملا اور وہ ملک تو خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے لگی تو اس کا تختہ ہی گول کر دیا گیا۔ قبل از وقت معزول کر کے اُسے اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک بروقت پہنچانے ہی نہیں دیا گیا اور کسی اور کی حکومت لا کر اس ملک کو پھر سے پیچھے کی جانب دھکیل دیا گیا۔
میاں نوازشریف کے موٹر وے کے منصوبے ہی کو لے لیجیے ، 1990 میں شروع ہونے والا اسلام آباد سے لاہور تک کا یہ منصوبہ جسے دو سال میں پورا ہونا تھا، اس میں رخنہ ڈال کر اور حکومت کو جبراً معزول کر کے زبردستی روکا گیا اور جو بالآخر 1997 میں جب میاں صاحب دوبارہ برسر اقتدار آئے تو مکمل ہو پایا، مگر 1999میں انھیں ایک بار پھر نہ صرف محروم اقتدار کر دیا گیا بلکہ گرفتار کر کے اور ایک فرضی مقدمہ میں عمر قید کی سزا سنا کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
2013 میں وہ جب دوبارہ برسر اقتدار آتے ہیں تو ملک اس وقت اُن کے حوالے کیا جاتا ہے جب ایک طرف دہشت گردی کا راج ہوتا ہے ، شہر شہر گاؤں گاؤں خود کش حملے اور بم دھماکے ہو رہے ہوتے ہیں۔
بجلی کے بحران اور کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہوتا ہے، کراچی کی بدامنی نے سارے ملک کی تجارت اور بزنس کو پامال کر دیا ہوتا ہے ، مگر وہ جیسے تیسے ملک کو سدھارنے لگتے ہیں تو لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دھرنا لگا کر روہڑے اٹکائے جانے لگتے ہیں
اس میں بھی ناکامی کے بعد سازشیں ہوتی رہتی ہیں اور پھر پاناما اسکینڈل کو بہانہ بنا کر 2017 میں انھیں تاحیات نا اہل قرار دے کر اس ملک کو ایک بار پھر گہری کھائی میں دھکیل دیا جاتا ہے ، وہ دن ہے اور آج کا دن یہ ملک پھر سنبھلنے ہی نہیں پایا ہے۔
اب تو یہ حال ہوچکا ہے کہ ہمیں کل کی خبر نہیں کہ رات کو نیند کر کے صبح اُٹھیں تو کہیں ڈیفالٹ نہ کر چکے ہوں۔ اس غیر یقینی صورتحال میں لوگ اپنا سرمایہ اس ملک سے نکال کر باہر لے جا رہے ہیں۔ ملک ایک خطرناک موڑ پرکھڑا ہے۔
کوئی معجزہ یا کرشمہ اگر نہ ہوا تو ہمیں سری لنکا اور صومالیہ جیسی صورتحال سے کوئی بھی بچا نہیں پائے گا۔
ملک کے وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں، وہ صاف صاف بتا بھی نہیں دیتے کہ کوئی ترتیب اور نسخہ کیمیا ان کے پاس نہیں ہے ، جسے استعمال کر کے وہ ملک کو ڈیفالٹ ہو جانے سے بچا سکتے ہیں۔ بس خالی خولی دلاسے دیے جا رہے ہیں۔
IMF من مانی شرائط پر ہمیں ایک ارب ڈالر کی قسط دینے میں بھی پس وپیش سے کام لے رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنا ایٹمی پروگرام اس کے ہاتھوں گروی رکھوا دیں، تب جا کے وہ ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرے گا۔ کوئی بھی اپنا قصور تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ملک جب 1971 میں دو لخت ہوگیا تھا تو بھی کسی نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔ آج بھی وہی حالات ہیں، ملک تباہ ہو چکا ہے، قوم کنگال ہوچکی ہے لیکن ذمے داروں کا تعین نہیں ہو پا رہا۔ کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرأت و ہمت نہیں ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنا جرم اور کوتاہی تسلیم کر لے۔
من پسند حکومت یا حکمراں دیکھنے کی خواہش نے یہاں کبھی کسی جمہوری حکومت کو چلنے ہی نہیں دیا۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے ، اپنا اور بنگلہ دیش کا موازنہ بھی کر کے دیکھ لیجیے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے حکومتوں کا مستحکم ہونا بہت ضروری ہوا کرتا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی جب سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کی جب وہاں غیر جمہوری اداروں کی مداخلت روکی گئی۔
حسینہ واجد مسلسل تیسرے دور میں حکومت کر رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے منصوبوں اور پالیسیوں پر نہ صرف عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو پائی ہیں بلکہ ملک کو بھی ترقی و خوشحالی سے ہمکنارکر پائی ہیں۔
Post A Comment:
0 comments: