وزیراعظم شہبازشریف نے چینی کی اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کی منظوری دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کوا سمگلروں، ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، عوام کو ستانے والوں سے حساب لیں گے، وزیراعظم نے وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو صوبے میں چینی کی قیمت کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات اور نگرانی کی ہدایت بھی کی۔
بلاشبہ رمضان میں جاری مصنوعی مہنگائی اورمنافع خوری کو روکنا حکومت کا فرض ہے،اس تناظر میں وزیراعظم شہبازشریف کا ایکشن لینے کا فیصلہ صائب ہے ۔پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی اور گرانی سے گزر رہا ہے، کم آمدنی والے شہری روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔
ناجائز منافع خوری کے ذریعے ان کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دنیا بھر میں غیر مسلم ممالک رمضان المبارک کے احترام میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں الٹ معاملہ کیا جاتا ہے،روزوں میں افطاری پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔
عید پر اور کسر نکل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ رواج چل نکلا ہے کہ ایک رمضان ہی ایسا مہینہ ہے جس میں اپنی مرضی کا منافع کمایا جا سکتا ہے، رمضان شریف کی آمد سے قبل ہی اشیاء خور دونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں۔
آلو،پیاز،لہسن اور دیگر سبزی فروٹ اور خاص طور پر روزہ دار کی ضرورت والی تمام چیزیں کئی گنامہنگی کر دی جاتی ہیں ریٹ لسٹ بازار میں تقسیم تو کروا دی جاتی ہے مگر اس پر عمل کرنے اور کروانے والا کہیں نظر نہیں آتا ہے اور یوں ایسا لگتا ہے کہ ہم رمضان المبارک کو مہنگا ترین مہینہ بنانے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ا س بار جو شے رمضان سے قبل 2سوروپے فی کلو گرام تھی،رمضان کے شروع کے دنوں میں یک دم 400روپے فی کلو گرام پر چلی گئی ہے، پھلوں کی قیمتوں کو بھی پر لگے ہوئے ہیں اور مقررہ قیمت سے نصف سے بھی اوپر قیمت پر فروخت ہورہے ہیں۔
متعلقہ سرکاری محکموں کا حال یہ ہے کہ وہ رمضان المبارک میں صرف جرمانوں کی بھر مار کرتے نظر آتے ہیں، قیمتیں کنٹرول کروانے میں بالکل ناکام ہوتے ہیں جرمانے ادا کرنے کے بعد دکاندار کی ریٹس مزید بڑھ جاتے ہیں اور پھر بعد میں مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
رمضان کے بابرکت مہینے کے شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سی اشیا ء کو روک لیا جاتا ہے اور پھر رمضان میں زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے رمضان جو رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور ہوتا ہے ہم اپنے غلط کاموں سے اس کو اپنے لیے عذاب کا ذریعہ بناتے پھر رہے ہیں۔
اگر ہمارے دکاندار حضرات اس بات پر زرا غور کریں کہ بقایا گیارہ مہینے منافع کمانے کے لیے بہت ہوتے ہیں صرف ایک ماہ مقد س میں اگر کم سے کم منافع کمائیں توا ن کی دنیا اور آخرت دونوں سنور سکتی ہیں۔
غیر مسلم ممالک اپنے تہوار وں ہر چیز کے دام کم کر دیتے ہیں تاکہ ہر بندہ خرید سکے اور عام دنوں میں چاکلیٹ اور بچوں کی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، کرسمس پر پچھتر فی صد کم ہو جاتی ہیں،جن کی آمدنی کم ہو تو ان کو کرسمس کی شاپنگ کے لیے بونس دیا جاتا ہے، جو عام آدمی کی تنخواہ جتنا ہوتا ہے اور ایسے چیزیں عام اور سستی ہو جاتی ہیں۔
جیسے فری میں ہوں ہر فردکے گھر شاپنگ کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ ہر فرد برینڈ ڈ کپڑے جُوتے گھر کا سامان ہر چیز لے سکتا ہے۔اس معاملے میں خیر عرب بھی تعریف کے حق دار ہیں۔ عربوں میں بھی روزوں میں ہر سڑک کے ساتھ ہر قسم کی افطاری کا اور سحری کا اہتمام ہوتا ہے، جو ملازمت پیشہ لوگ ہیں ان کو ایک مہینہ کی چھٹی مل جاتی ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف تو ہم سب جانتے ہیں کہ منافع خور ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، تاکہ عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہو جائیں، لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے۔ کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا کیونکہ امیر کو ضرورت نہیں ہے اور غریب کی کوئی سنتا نہیں ہے۔
مرغی، بیسن، فروٹ آسمان سے باتیں کرنے لگ ہیں۔ جو کسر رہ جاتی ہے عید پر پوری کر لیں گے۔یہ نظام کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے ووٹ لینے کے لیے ہر بار جھوٹ پہ مبنی ایک نیا نعرہ لایا جاتا ہے، جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بس سب سیاست دان ایک دوسرے پر الزام دے کر ووٹ لے لیتے ہیں اور فائدہ اپنی نسلوں کا کرتے ہیں
آٹے، مرغی، سبزیوں، پھلوں اور اشیائے خورو نوش کی مصنوعی مہنگائی نے عوام کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی،ایسا لگتا ہے رمضان میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوز مافیا کو کھلی چھٹی دیدی گئی ہے۔ ملک میں مفت آٹے کی قطار میں لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں اور اپنی جانیں دے رہے ہیں۔
رمضان شریف میں شیطان کو تو قید کردیا جاتا ہے مگر اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اسلامی جمہوریہ مملکت پاکستان میں رمضان کے دنوں ’’انسانی شیطانوں‘‘ کو کھلے عام چھوڑ دیا جاتا ہے جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں، من مانی کرتے ہیں اور اشیا خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔
ملک کی مجموعی صورت حال پر نگاہ ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ آئین یا اس کے تحت کوئی قانون ملک میں موجود نہیں ہے۔ واقعات کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ ہم اخلاقیات کھوچکے اور مجموعی طورپر معاشرہ اخلاقی طور پربھی دیوالیہ ہوچکا ہے۔
عوام پربے روزگاری، غربت وافلاس بڑھتی مہنگائی، چھینے گئے وسائل پر بے بسی کے ساتھ وزرائ، مشیران اور سرکاری ترجمانوں کے سب اچھا کے بیانات جلتے ہوئے تیر کی مانند ہیں۔کرپشن نے قانونی صورت اختیار کرلی ہے اور جمہوریت کا حسن بن گئی ہے۔ملک میں غربت وا فلاس سے بچوں سمیت والدین خودکشی کررہے ہیں۔
خواتین پر تشدد،بچیوں کوقتل کرنے کے واقعات، درجنوں شہریوں کی بے بس موت نے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ہر آنے والا دن نیا سیاسی اور معاشی بحران اپنے ساتھ لا رہا ہے۔
مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور نو کروڑ لوگ آج غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ ذاتیات کی سیاست ہورہی ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے اور بات چیت کرنے کو تیار نہیں، ایک دوسرے پر ملک دشمنی، غداری کے الزامات لگائے جارہے ہیں، ملک اور قوم کے لیے کوئی منصوبہ، کوئی منشور، کوئی ہوم ورک نہیں تو ایسے میں ملک کیسے چلے گا۔بحیثیت قوم آج ہمارا معاشرہ، ہم لوگ سماجی، اخلاقی اور دینی پستی کا شکار ہوچکے ہیں۔
یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر انتظامیہ نیک نیتی کے ساتھ یہ کام انجام دے تو دکاندار رضا کارانہ طو ر پر ایسا کرنے پر راضی ہو جائیں گے، بصورت دیگر زبانی دعوؤں سے تمام تر دعوے اپنی اہمیت کو کھو بیٹھیں گے۔
صوبائی حکومتیں سستے بازار بھی ضرور لگائیں لیکن عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ملک بھر میں سبسڈی پلان ترتیب دیں جس سے عوام کو سستے بازراوں کے علاوہ بھی ہر شہر گلی محلے میں بھی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نظر آئیں اور عوام کو رمضان میں بھر پورحکومتی سبسڈی نظر آئے۔
تاجر، دکاندار جائز منافع لے کر ماہ مقدس اور عید کے ایام میں اللہ کو راضی کریں۔ بلاشبہ قیامت کے دن پر یقین رکھنے والا تاجر ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں، معذوروں، مفلسوں اور روزہ داروں کا استحصال نہیں کر سکتا۔ ناجائز منافع خور دنیا کماتے کماتے اپنی آخرت کو خراب نہ کریں۔ جائز منافع تک محدود رہنے والوں کے رزق میں اللہ تعالیٰ برکتیں عطا کرتا ہے اور ان پر مدد کے دروازے کھولتا ہے۔
پاکستان میں طلب و رسد کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی میکنزم نہیں ہے‘ پاکستان اناج اور زرعی پیداوار میں خود کفیل ہے ‘اصل مسئلہ انتظامی حکمت عملی اور قوانین کا ہے۔
پاکستان میں کل گندم کی کتنی ضرورت ہوتی ہے ‘ ہر صوبے کو کتنی گندم چاہیے‘ اس کے بعد ہر شہر ‘ٹاؤن‘ قصبے اور گاؤں تک کے اعدادوشمار موجود ہیں کہ وہاں سالانہ بنیادوں پر کتنی گندم ضروری ہے۔
اگر ان اعدادروشمار کو مدنظر کھ کر بین الصوبائی ‘بین اضلاعی فلور ملز کی تعداد مقرر کی جائے اور پھر ان فلور ملز کو گندم فراہم کی جائے ‘ فلور ملز کی ہفتہ وار پسائی کی مقدار چیک کی جائے‘ ان کے پاس اسٹاک میں کتنی گندم محفوظ ہے۔
اس کا رجسٹرمکمل رکھا جائے ‘ افغانستان اور ایران کی طرف اسمگلنگ کو روکا جائے تو پاکستان کے کسی صوبے ‘ کسی شہر اور کسی گاؤں میں گندم اور آٹے کی قلت نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے شرط گڈ گورننس اور مربوط قوانین کی ہے۔
The post منافع خوری کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/N3zVPMs
Post A Comment:
0 comments: