امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے روس کے فضائی حملوں کے بعد یوکرین کو روس کے خلاف فوجی طور پر مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف روس نے یوکرین کے شمال مشرقی شہر خار پر ایک بڑے میزائل حملے کے ساتھ یوکرین کے59 ڈرون طیارے مار گرائے ہیں۔ 2024 کا آخری سورج غروب ہونے تک روس اور یوکرین کے درمیان جنگ عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ لڑائیاں جاری ہیں، محاذوں میں تبدیلی آرہی ہیں اور مذاکراتی کوششیں بھی چل رہی ہیں۔ تقریباً تین برس ہونے والے ہیں، اس جنگ کو، بلاشبہ اس تنازع نے عالمی برادری کو تقسیم کردیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کہہ چکے ہیں کہ وہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ یوکرین جنگ کے خاتمے پر ممکنہ مذاکرات میں مفاہمت کے لیے تیار ہیں اور یو کرینی حکام کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے بھی ان کی کوئی شرط نہیں ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین تنازع کو تیزی سے ختم کروانے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی ایسی تفصیل نہیں دی جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ یہ مقصد کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ رواں سال بھی روس نے یوکرین کے خلاف جنگ جاری رکھی اور زمین پر نمایاں کامیابیوں کو یقینی بنایا۔ اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی واپسی کا اس تنازع پر کیا اثر پڑے گا؟ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس جنگ کو ایک روز میں ختم کرا دیں گے۔ یوکرین اور یورپ کے دیگر ممالک میں بہت سے لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اس کا مطلب پوتن کی لیے جانب داری اور موجودہ صورت حال کا باقی رہنا ہے۔ اس جنگ کے عالمی اقتصادی اثرات بھی گہرے ہیں، جس نے توانائی (انرجی) کی قیمتوں، سپلائی چینز اور غذائی سلامتی پر منفی اثر ڈالا ہے۔ مغربی ممالک خاص طور پر امریکا اور یورپی یونین نے روس پر سخت پابندیاں عائد کیں اور یوکرین کی حمایت کی۔ دوسری جانب روس نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ اس کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جنگ کے دوران ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا مہاجرین کا بحران پیدا ہوا ہے۔ مغرب کی کوشش رہی ہے کہ جنگ کے دوران روس کو فوجی گاڑیوں اور ہتھیاروں کے نظام سمیت بہت سے جدید آلات کے لیے درکار سیمی کنڈکٹرز کی قابلِ اعتماد فراہمی منقطع کی جائے۔ دوسری جانب روس کی جانب سے یوکرین جنگ جاری رکھنے میں چین کی حمایت اہم رہی ہے۔ بیجنگ روس کے لیے مختلف قسم کے اقتصادی تعاون کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے جو مغربی پابندیوں اور برآمدی کنٹرول دونوں کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔ چین نے روس سے توانائی کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے جس میں تیل اور گیس کی وہ سپلائی بھی شامل ہے جس کا روس نے یورپ سے چین کی جانب رخ موڑا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے روسی اداروں کو مغربی پابندیوں سے آزاد رہتے ہوئے اپنی کرنسی یوان میں لین دین کرنے کی اجازت دی ہے۔ یوکرین روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1991میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں، لیکن یوکرین کو علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کرنا کئی تاریخی اسباب سے روس کے لیے مشکل رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین ایک بالادست قوت کے طور پر ابھری تھی۔ اسی لیے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سوویت یونین کا حصہ رہنے والے یورپی ممالک نے روس کے اثر سے نکلنے کے لیے نیٹو کا رُخ کرنا شروع کیا۔ یوکرین بھی ان ممالک میں شامل تھا، لیکن سوویت یونین میں شامل دیگر ممالک کے مقابلے میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روس کے لیے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔دراصل اس تنازعے کی بنیاد میں شناخت، خود مختاری اور جغرافیائی سیاسی غلبے کی جدوجہد شامل ہے۔ یوکرین جو یورپی یونین اور نیٹو جیسے مغربی اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، روس کی طرف سے ایک براہ راست چیلنج کا سامنا کر رہا ہے جو ان اقدامات کو اپنے اثرورسوخ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے یوکرین کی حمایت جس میں روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور یوکرین کو فوجی امداد شامل ہیں، نے تنازعے کی پیچیدگی کو بڑھا دیا ہے جس میں متعدد عالمی عوامل اور مفادات شامل ہیں۔صورتحال نے2021کے آخر اور 2022 کی شروعات میں ڈرامائی موڑ لیا۔ روس نے یوکرین کی سرحد کے قریب فوجیں جمع کرنا شروع کردیں اور بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کیں۔ ناٹو (NATO) اور مغرب کے سامنے کئی مطالبات پیش کیے جن میں یہ یقین دہانی کرانا شامل تھی کہ یوکرین کبھی ناٹو (NATO) کا رکن نہیں بنے گا۔ حالات کو بہتر کرنے کی سفارتی کوششیں ناکام رہیں اور24 فروری 2022کو روس نے یوکرین پر مکمل حملہ شروع کر دیا۔ اس حملے کو ابتدا میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے خصوصی ’’فوجی آپریشن‘‘ قرار دیا، جس کا مقصد یوکرین کو ’’ نازی‘‘ سے پاک کرنا اور روسی بولنے والوں کی حفاظت کرنا تھا۔ تاہم اس کے حقیقی محرکات زیادہ پیچیدہ ہیں اور ممکنہ طور پر روسی اثرورسوخ کی دوبارہ بحالی، یوکرین کے مغرب کے ساتھ مزید انضمام کی روک تھام اور اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ پر مشتمل ہیں۔ روس نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ایک ہزار دن قبل روس نے جب یوکرین پر حملہ کیا تھا، اس کے بعد سے یوکرین کی مسلح افواج کے 900,000 سے زیادہ ارکان ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ روسی وزارت دفاع اور سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کے ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی۔ ماسکو اور کیف نے اس حوالے سے اپنے نقصانات کی صحیح تعداد ابھی تک ظاہر بھی نہیں کی ہے۔ دونوں طرف سے مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں مغربی اندازوں میں عام طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ روس کے مقابلے میں یوکرین میں ہلاکتیں بہت کم ہوئی ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اب تک 57,000 یوکرینی فوجی مارے جا چکے ہیں، تاہم مغربی ممالک کے اندازوں کے مطابق یہ تعداد روسی ہلاکتوں کا تقریباً نصف ہے۔ نیٹو نے جو تخمینہ پیش کیا ہے اس کے مطابق تقریبا چھ لاکھ روسی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں، جب کہ یوکرین کی حکومت کا کہنا ہے کہ فروری 2022 میں جنگ کے آغاز سے اب تک روس کے تقریبا سوا سات لاکھ فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔اس وقت روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے کئی ملکوں کو مشکلات درپیش ہیں ۔ ترکی اور ہندوستان کے لیے ایک طرف کھائی اور دوسری طرف سمندر والا معاملہ ہوگیا ہے۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں روس سے انتہائی جدید میزائل شکن ہتھیار S-400کی خریداری کی تھی۔ ہندوستان کے لیے تو صورت حال اور بھی نازک ہے کیونکہ امریکا اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، دوسری طرف روس سب سے بڑا ملٹری پارٹنر ہے۔ دنیا بھر میں اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک امریکا، فرانس، روس، چین اور جرمنی تھے۔ فرانس روس کو پیچھے چھوڑ کر اب اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ روس کی برآمدات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جب کہ فرانسیسی فروخت میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019 تک 31 ممالک روس سے ہتھیار حاصل کر رہے تھے تاہم 2023تک، ان کی تعداد کم ہوکر 12 رہ گئی تھی۔ ان میں بھارت اور چین شامل ہیں، جنھوں نے روس کے ساتھ تیل اور گیس کی تجارت کو جاری رکھا ہوا ہے اور روسی ساز و سامان کے اب تک کے سب سے اہم خریدار ہیں۔ انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2022میں روس کے یوکرین پر حملے اور تب سے جاری جنگ نے یورپ میں ڈرامائی انداز میں نئے ہتھیاروں کی خریداری کے رجحان کو آگے بڑھایا ہے، جس کا بنیادی فائدہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہوا ہے۔اگر سپر پاور ممالک ہتھیاروں کی اپنی کمپنیوں کو فروغ دینے کے لیے خطیر رقم کا سودا کرتے ہیں اور جنگ زدہ علاقوں کے شہریوں کو امداد کے نام پر اتنی قلیل رقم مختص کرتے ہیں تو دنیا کے حالات بہتر کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہ وہی ممالک ہیں جن کے سربراہان تنازعات والے خطوں میں جنگ ختم کرنے کے بیان دیتے نظر آتے ہیں مگر اپنی کمپنیوں کے ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھتے ہیں۔ کیا اس صورت میں دنیا میں امن قائم کرنا ممکن ہے؟ خیال رہے کہ عالمی معیشت مضبوطی سے جڑی ہوئی اور تمام ممالک ایک دوسرے پر منحصر ہیں، لہٰذا اگر تصادم کا اثر براہ راست نہ ہو، تب بھی یہ بالواسطہ ہو سکتا ہے۔ متذکرہ اعداد و شمار کے پس منظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپر پاور ممالک جنگوں سے فائدہ اٹھاتے نظر آرہے ہیں جب کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت دوراہے پر کھڑی ہے اور تمام ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ بڑھتی ہوئی جنگ کو بڑے پیمانے پر تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جائے۔
from The Express News https://ift.tt/GQZC5Uk
یہ بلاگ تلاش کریں
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
بلاگ آرکائیو
- جنوری 2025 (16)
- دسمبر 2024 (36)
- نومبر 2024 (45)
- اکتوبر 2024 (38)
- ستمبر 2024 (36)
- اگست 2024 (37)
- جولائی 2024 (36)
- جون 2024 (50)
- مئی 2024 (66)
- اپریل 2024 (71)
- مارچ 2024 (70)
- فروری 2024 (57)
- جنوری 2024 (74)
- دسمبر 2023 (73)
- نومبر 2023 (79)
- اکتوبر 2023 (105)
- ستمبر 2023 (131)
- اگست 2023 (120)
- جولائی 2023 (123)
- جون 2023 (127)
- مئی 2023 (157)
- اپریل 2023 (150)
- مارچ 2023 (155)
- فروری 2023 (154)
- جنوری 2023 (24)
- اگست 2022 (5)
Click here to load more...
Post A Comment:
0 comments: