انتیس سالہ ممتاز بلے باز، بابر اعظم حالیہ ایک روزہ کرکٹ عالمی کپ میں عمدہ کارکردگی نہیں دکھا پائے مگر ان کی داستانِ زندگی میں سبھی کے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔وہ عیاں کرتی ہے کہ انسان بے سروسامانی میں محنت، استقلال، صبر اور ہمت سے کام لے تو قدرت الہی بھی اسے عظیم کامیابیاں عطا کرتی ہے۔
بابر اعظم نے1994ء میں لاہور کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا۔ والد، اعظم صدیقی ایک سرکاری ادارے میں پڑھاتے تھے۔ تنخواہ مگر کم تھی۔ اِسی لیے اْنھوں نے گھڑیاں مرمت کرنے والی چھوٹی سی دکان بھی کھول لی۔ یوں ضروری گھریلو اخراجات پورے ہونے لگے۔ مگر کوئی زائد خرچ آجاتا، تو پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ گھرانا پھر بھی شکر ادا کرتے زندگی گزار رَہا تھا۔
اعظم صدیقی کے بڑے بھائی، محمد اکمل صدیقی ایک کرکٹ اکیڈمی کے منتظم تھے۔ اْنھوں نے اپنی نگرانی میں اپنے ایک بیٹے، کامران اکمل کو کرکٹ سکھائی اور اْسے عمدہ بلے باز اور وِکٹ کیپر بنا دیا۔ جب بابر آٹھ سال کا تھا، تو 2002ء میں کامران اکمل کو پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ کامران کا چھوٹا بھائی، عمر اکمل بھی عمدہ بیٹسمین ثابت ہوا۔
ہمدرد والدین
چچازاد بھائیوں کو کھیلتا دیکھ کر بابر بھی بچپن سے کرکٹ میں دلچسپی لینے لگا۔ اْس نے محلے کی گلیوں میں کھیل کا آغاز کیا۔ اعظم صدیقی روایتی والد کی طرح نہیں تھے جو بچوں پر عموماً اپنی مرضی ٹھونس دیتے ہیں۔ اْنھوں نے دیکھا کہ بابر کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی لیتا ہے، تو وہ بیٹے کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ یہی نہیں، وہ اْس کے ساتھی و مددگار بن گئے۔باپ کی مدد پا کر بابر کو بہت اعتماد حاصل ہوا۔
اب اْسے گھر والوں سے چھپ کر کرکٹ کھیلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اِس امر نے نوجوان لڑکے کا بہت حوصلہ بڑھایا۔ بابر نے ہر قیمت پر بہترین بلے باز بننے کا تہیہ کر لیا تاکہ اپنے اور وَالد کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے، تاہم اِس خواب کی تکمیل میں پیسوں کی کمی آڑے آگئی۔
دراصل بابر والدین کا دوسرا بیٹا ہے اور جب اْس نے 2004ء سے باقاعدہ کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا، تو بابر کے دو اَور بھائی بہن تولد ہو چکے تھے۔ یوں چھ افراد وَالے گھرانے کے اخراجات بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ اتنی رقم نہ ہوتی کہ بابر کے لیے اچھی قسم کا بلا اور گیند خریدا جا سکے۔بابر کی خوش قسمتی کہ اْسے ہمدرد وَ بہترین والدہ بھی نصیب ہوئیں۔ والدہ روزمرہ اَخراجات سے کچھ رقم بچا لیتی تھیں۔
یہ رقم پھر بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں کام آتی۔ بچائی گئی رقموں ہی سے وقتاً فوقتاً بابر کے لیے بلا، گیند، گلوز وَغیرہ خریدے گئے۔ یوں والد کے ساتھ ساتھ نرم و شفیق والدہ بھی بیٹے کی مدد کرتی رہیں تاکہ وہ اَپنے سارے خواب پورے کر سکے۔
ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی والدین کی خواہشات کے برعکس اپنا کوئی راستہ چْن لے، تو اْس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ والدین ہی نہیں سارے خاندان والے بھی اْسے لعن طعن کرتے ہیں۔ بہت کم والدین بچوں کی تمنا کا احترام کرتے اور پھر اْن کے مددگار بن جاتے ہیں۔ عقلِ سلیم کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کی تمناؤں کو اوّلیت دی جائے۔ بیشک وہ ناتجربے کار ہوتے ہیں مگر وقت اْنھیں تجربہ دے ڈالتا ہے۔ پھر بچہ اپنی خوشی سے زندگی کے فیصلے کرتا اور اْن کے اچھے یا خدانخواستہ بُرے ہونے کا ذمے دار ہوتا ہے۔
بابر تیرہ سال کا تھا کہ ایک کرکٹ کلب میں تربیت پانے لگا۔ کلب والوں نے اْس کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے کم فیس رکھی ۔ اعظم صدیقی کے پاس ایک ٹوٹی پھوٹی موٹرسائیکل تھی۔ وہ اْس پہ بابر کو کلب لے جاتے۔ یہی نہیں، وہاں رْک کر بیٹے کا اِنتظار کرتے۔کلب والے کبھی کبھی دوپہر کا کھانا کھلاڑیوں کو کھلاتے تھے۔
اْدھر اعظم صدیقی کے پاس صرف ایک انسان کا پیٹ بھرنے کی خاطر رقم موجود ہوتی، لہٰذا جب بابر کو کھانا نہ ملتا، تو وہ اْسے کِھلا دیتے اور یہ بہانہ کرتے کہ اْنھوں نے کھا لیا ۔ یوں بیٹے کا مستقبل سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیے باپ قدم قدم پر قربانیاں دیتا رہا۔ ایک باپ ہی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کرتا ہے۔
اسٹیڈیم میں آمد
اْنہی دنوں ستمبر 2007ء میں جنوبی افریقا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ اْسے لاہور میں ایک ٹیسٹ اور ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلنے تھے۔ تب کامران اکمل قومی کرکٹ ٹیم کا حصّہ بن چکے تھے۔ اْن کی سفارش پر بابر کومددگار اور باؤنڈری پہ بال پکڑ لڑکے کے طور پر رکھ لیا گیا۔ چنانچہ پاکستانی اور جنوبی افریقن ٹیموں کے مقابلوں کے دوران بابر نے مددگاری فرائض انجام دیے۔
یہ تجربہ نشوونما پاتے بابر کے لیے خوشگوار ثابت ہوا۔ اْس نے جانا کہ دورانِ کھیل اور عام حالات میں اسٹیڈیم کا ماحول کیسا ہوتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر کرکٹ کیونکر کھیلی جاتی ہے۔ بلے بازوں اور بالروں کا کھیل دیکھ کر اْن کی خوبیاں اور خامیاں کیسے جانی جاتی ہیں۔ غرض تیرہ برس کے لڑکے کو ’’مددگار لڑکا‘‘ بن کر بھی سیکھنے کے لیے بہت کچھ مل گیا۔
جب پاکستانی اور جنوبی افریقن کھلاڑی نیٹ پریکٹس کرتے، تو بابر اْنھیں کھیلتے ہوئے بغور دَیکھتا۔ جنوبی افریقن ٹیم میں اْس کا پسندیدہ بلے باز، اے بی ڈی وِیلیرز بھی شامل تھا۔ بابر اْس کے کھیلنے کی تکنیک غور سے دیکھتا۔ یوں وہ مشاہدے کی اپنی قوت سے بھی کرکٹ کے اسرار و رْموز جاننے کی جدوجہد کرتا رہا۔
ایک بار بابر نے باونڈری پر جنوبی افریقن کھلاڑی کا مارا چھکا کیچ کر لیا۔ اْس نے جس مہارت و آسانی سے کیچ پکڑا، اْسے دیکھ کر جنوبی افریقن کھلاڑی، جے پی ڈومنی نے پیش گوئی کی کہ یہ لڑکا ایک دن عمدہ کھلاڑی بنے گا۔ اْسے یقیناً خبر نہ تھی کہ یہ پیشین گوئی ایک دن زبردست طریقے سے پوری ہو کر رہے گی۔
بابر بڑی محنت سے کرکٹ کھیلتا رہا۔ مسلسل مشق سے اْس کا کھیل بہتر ہونے لگا۔ وہ چوکے چھکے مارنے والا نامور بلے باز بن گیا۔ لاہور کے مشہور کرکٹ کلب اْسے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کی تگ و دو کرنے لگے۔ اپنے شاندار کھیل کی بدولت وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ اْن لوگوں کی نظروں میں بھی آ گیا جو اْبھرتے جوہرِ قابل کی تلاش میں رہتے۔ 2007ء ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیرِ اہتمام کھیلی جانے والی انڈر 15 ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں اْسے بھی شامل کر لیا گیا۔
جوتے نہیں ہیں
ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں کھیل کے مطلوبہ جوتے پہن کر ہی کھلاڑی شریک ہو سکتے تھے۔ یہ جوتے خاصے مہنگے تھے۔ اِس لیے اعظم صدیقی نے کوشش کی کہ اْن کا کوئی بھتیجا اپنے کرکٹ جوتے بابر کو مستعار دَے ڈالے۔ کہتے ہیں، دونوں کا کہنا تھا، اْن کے پاس مطلوبہ جوتے موجود نہیں۔بابر اْس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ’’مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ابّا کو اَپنے بھتیجوں سے جوتے نہیں مانگنے چاہئیں تھے۔ اْن کے انکار سے ہمیں کچھ بے عزتی محسوس ہوئی۔ تب مَیں نے عہد کیا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاوں گا، بلکہ اپنی محنت و سعی سے ہر شے حاصل کروں گا۔‘‘
ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں بھی بابر نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔ اپنے معیاری کھیل کی بدولت وہ سرکاری اداروں کی کرکٹ ٹیموں کے سلیکٹروں کی نگاہوں میں آ گیا جو نوجوان بلے بازوں کو کھوجتے رہتے۔ اب زیادہ اَعلیٰ کرکٹ کھیلنے کے لیے بابر کو ’’کرکٹ کِٹ‘‘ درکار تھی۔ کرکٹ کِٹ میں بلا، گلو، بیٹنگ پیڈ اور دِیگر ضروری سامان شامل ہوتا ہے۔ مگر یہ کرکٹ کِٹ ہزاروں روپے میں آتی تھی اور یہ بابر کے اہلِ خانہ کے لیے بھاری رقم تھی۔
زیور کی فروخت
دکان سے تو جو آمدن ہوتی، وہ گھریلو اخراجات پورے کرنے میں صَرف ہو جاتی۔ تاہم بابر کی والدہ اخراجات میں سے کچھ رقم بچا کر محفوظ کر لیتی تھیں۔ اب پھر یہی رقم بابر کے لیے کرکٹ کِٹ خریدنے میں کام آئی۔ مگر یہ رقم کم تھی، اِس لیے والدہ نے اپنا کچھ زیور بھی فروخت کر دیا۔ اِس طرح بابر کے لیے کرکٹ کِٹ کا بندوبست ہوا۔یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی صورت اولاد کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے۔ ماں باپ نہ صرف اپنے بچوں کو دکھ درد سے دور رَکھنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں بلکہ اْن کی سرتوڑ کوشش رہتی ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے اور معاشرے میں بلند مقام پا لے۔
کرکٹ کِٹ پا کر بابر کا کھیل مزید نکھر گیا۔ وہ اَب باآسانی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا۔ ماں باپ کی دعائیں اور قربانیاں رنگ لائیں اور 2010ء میں زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیم میں اْسے شامل کر لیا گیا۔ یوں صرف سولہ سال کی عمر میں بابر والدین کا کماؤپوت بن گیا۔ اْسے بینک سے مناسب تنخواہ ملنے لگی۔ اب وہ اَپنے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو گیا۔
قومی کرکٹ میں
فرسٹ کلاس کرکٹ نے بابر کا کھیل مزید نکھار دِیا۔ وہ بڑی مہارت اور خوبصورتی سے شاٹس کھیلنے لگا۔ اْسے موقع محل کے مطابق بھی کھیلنا آگیا۔ جب وکٹیں محفوظ رکھنا ہوتیں، تو وہ سست رفتاری سے کھیلتا۔ اور جب تیز بلے بازی کرنے کا موقع آتا، تو وہ چوکوں چھکوں کی بارش کر دیتا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کھیل کے باعث ہی مئی 2015ء میں بابر کو پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔بابر نے یہ خبر سنی، تو اْس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ برسوں کی محنت آخر رنگ لے آئی تھی۔ گھر میں والدین اور بہن بھائی بھی بہت خوش تھے۔یوں عالمی کرکٹ میں اس کے تحیر خیز سفر کا آغاز ہو گیا جو کئی بین الاقوامی ریکارڈ بناتا جاری و ساری ہے۔
The post ’’بال پِکر‘‘ سے کرکٹر بننے تک appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/SNnveKB
Post A Comment:
0 comments: