9 اور 10 اپریل 2022 کی ہنگامہ خیز اور طوفانی درمیانی شب جناب عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ خان صاحب نے بمشکل ساڑھے تین سال اقتدارمیں گزارے۔ انھیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جو بے تحاشہ محبت و تعاون ملا، جناب عمران خان اِسے سنبھال نہ سکے ۔
یہ اُن کی بڑی ہی بد قسمتی تھی؛ چنانچہ خان صاحب کی مخالف درجن بھر سیاسی جماعتیں متحدہ و متفقہ طاقت سے عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں ۔ اتحادیوں کا یہ آئینی و اصولی اقدام یوں کامیابی سے ہمکنار ہُوا کہ خان حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا ۔
خان صاحب نے اضطراب، ناراضی اور غصے میں بے حد مزاحمت کی۔ اُن کی مزاحمت مگر کسی کام نہ آ سکی۔9 اور 10 اپریل کی درمیانی رات عمران خان کی حکومت نے دَم توڑ دیا۔
اور وہ مبینہ طور پر وزیر اعظم ہاؤس سے’’ صرف ایک ڈائری ‘‘ بغل میں دبا کر گھر چلے گئے ۔ اُن کے جاتے ہی محمد شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن گئے ۔دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے کے مصداق، یہ اُن کی دیرینہ آرزُو بھی تھی ۔ شہباز شریف کی قیادت میں دراصل اتحادی حکومت برسر اقتدار آئی تھی۔
آج جناب شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو پورا ایک برس مکمل ہو گیا ہے کہ آج 10اپریل2023ہے ۔ نون لیگ کے حامیوں اور بہی خواہوں کا مطالبہ تھا کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوتے ہی نئے انتخابات کروا دینے چاہئیں کہ اُس وقت عمران خان اپنے متنوع اقدامات، پالیسیوں اور فیصلوں کے کارن عوامی نامقبولیت کی سب سے نچلی سطح پر کھڑے تھے۔ لندن میں براجمان نون لیگ کے سپریم لیڈر، جناب نواز شریف، کا بھی مبینہ طور پر یہی مشورہ اور خواہش تھی۔
عمومی اندازے اور قیافے یہی ہیں کہ اگر 10اپریل 2022 کے فوری بعد عام انتخابات کروا دیے جاتے تو خان صاحب بُری طرح ہار جاتے ۔ اتحادی حکومت اور شہباز شریف نے مگر اس مشورے اور تجویزکو ماننے سے انکار کر دیا کہ اُن کے سامنے اقتدار و اختیارات کی لا تعداد دلفریبیاں ٹھاٹھیں ماررہی تھیں۔ یہ مگر قابلِ فہم بات نہیں ہے کہ جناب نواز شریف کی مرضی و منشا کے برعکس شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گئے ہوں۔
اقتدار سنبھالتے ہی اتحادی حکومت کے وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے اعلان کیا تھا:(1) مَیں وزیر اعظم کی آئینی مدت پوری کروں گا(2)عوام کو درپیش کمر شکن مہنگائی، مہیب مایوسی اور بے روزگاری کم کروں گا(3) خواہ اپنے کپڑے بیچ دُوں،عوام کو سستا آٹا، گھی، چینی وغیرہ فراہم کرنے کی حتمی کوشش کروں گا(4) سرکش ڈالر کو لگام دُوں گا۔
شہباز شریف صاحب کے اِن وعدوں اور دعووں کو آج پورا ایک سال مکمل ہو گیا ہے ؛ چنانچہ عوام( جنھیں مہنگائی نے کچل کر رکھ دیا ہے) ہی گواہی دے سکتے ہیں کہ اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف اپنے وعدوں کو کتنا اور کہاں تک پورا کر سکے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح شہباز شریف نے بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے کچلے عوام کو وعدوں کا لولی پاپ دینے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔سفاک سچ تو مگریہ ہے کہ شہباز شریف اور اُن کی اتحادی حکومت عوام سے کیا گیا اپنا ایک بھی وعدہ ایفا نہیں کر سکے ہیں ۔
جس دن نواز شریف کے برادرِ خورد نے وزیر اعظم کی کرسی سنبھالی تھی ، اُس دن امریکی ڈالر 175روپے کا تھا۔ایک سال گزرنے کے بعد ڈالر آج تقریباً300کے ہندسے کو چھُو رہا ہے ۔ آئی ایم ایف نے پاکستان اور اتحادی حکومت کی گردن دبوچ رکھی ہے ۔ اور شہباز حکومت ہے کہ مہنگائی ، ڈالر کی بڑھتی قیمت ، روپے کی گھٹتی قدر، اشیائے خورونوش اور بجلی و گیس اور پٹرول میں بے تحاشہ اضافے کی ذمے داری عمران خان اور اُن کی سابقہ حکومت پر ڈال رہی ہے۔ یہی وتیرہ اور اسلوب خان صاحب نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں اختیار کیے رکھا۔
دونوں دھڑوں نے مگر اپنے نجی مفادات خوب سمیٹے۔ آج ایک سال گزرنے کے بعد اجتماعی عوامی تاثرات یہ ہیں کہ اتحادی حکومت میں شامل جملہ جماعتوں کے لیڈروں نے خود پر قائم کئی خطرناک مقدمات ختم تو کروائے، اپنے نجی مالی مفادات سمیٹنے میں کوئی دریغ نہیں کیا ، مگر عوام کش پالیسیوں کے اجرا و تسلسل میں مکمل بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔
شہباز حکومت کے معرضِ عمل میں آنے کے 12روز بعد معروف امریکی تھنک ٹینک Brookings Institutionسے وابستہ عالمی شہرت یافتہ اسکالر اور کئی معرکہ آرا کتابوں کے مصنف، بروس رائیڈل،نے22اپریل2022 کو پاکستان کی نئی حکومت بارے ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا۔ موصوف نے امریکی صدر، جو بائیڈن، کو مشورہ دیتے ہُوئے لکھا تھا:’’وزیر اعظم شہباز شریف کو مالی اعتبار سے ایک کمزور ترین حکومت ملی ہے۔
ہم افغانستان کی محوری پالیسی کے تحت پاکستان کی عسکری اور مالی امداد کرتے آئے ہیں ، لیکن اِس امداد کا براہِ راست فائدہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پہنچتا رہا ہے؛ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی کسی سویلین حکومت کو دَورِ حکومت پورا نہیں کرنے دیا۔ اب وقت اور نئے حالات کا تقاضا ہے کہ صدر جو بائیڈن فوری طور پر نئے وزیر اعظم پاکستان، شہباز شریف، سے بات کریں ۔
شہباز شریف سے اس لیے بھی جو بائیڈن کو ’’ہائی لیول ڈائیلاگ ‘‘ کرنا چاہیے کہ (1)وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب، کے تین بار کامیاب ترین وزیر اعلیٰ رہے ہیں(2)اُن کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہیں(3) وہ پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کے بھائی ہیں (4) دونوں بھائی پاکستان کے حریف، بھارت، سے تصادم کے حامی نہیں ہیں (5)عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے پر امریکا پر بے بنیاد تہمتیں عائد کی ہیں ۔ ان تہمتوں سے پاک امریکا تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہُوئے ہیں ۔ عمران خان شہباز حکومت کو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے نام سے مطعون کرتے ہیں، اس لیے بھی جو بائیڈن پر لازم ہے کہ وہ شہباز شریف سے براہِ راست کلام کریں۔‘‘
اِس مشورے پرامریکی صدر نے کتنا عمل کیا، یہ سب کے سامنے ہے ۔ ستمبر2022 کے آخری ہفتے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ریسپشن میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی امریکی صدر، جو بائیڈن، سے ملاقات ہُوئی ۔ اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں آئے مہلک سیلابوں اور سیلاب زدگان کی اعانت و امداد کے لیے امریکا نے فوری طور پر یو ایس ایڈ کو متحرک کیا۔ لیکن مجموعی طور پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان اور شہباز حکومت کی کوئی دستگیری بروئے عمل نہ آ سکی ۔ پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کی سرد مہری تو سامنے کی بات ہے ۔
پچھلے پورے ایک سال کے دوران شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم سعودی عرب، برطانیہ ، چین اور ترکی کے بھاری بھر کم دَورے کیے ہیں ۔ لیکن معاشی بدحالی اور ابتری کے گرداب میں گھرے پاکستان کا ہاتھ کسی نے بھی تھامنے سے صاف انکار کررکھا ہے۔ شہباز شریف کی 7 درجن افراد پر مشتمل کابینہ الگ سے غریب عوام کے کندھے توڑ رہی ہے ۔عمران خان کی حکومت مخالف یلغار کے سامنے بھی اتحادی حکومت بے بس ہے ۔
عدالتِ عظمیٰ کا تازہ فیصلہ علیحدہ سے شہباز حکومت کے لیے باعثِ پریشانی ہے ۔ خواجہ میر درد کے ایک شعر میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ شاید شہباز شریف یوں گنگنا رہے ہوں: ’’حکومت‘‘ ہے یا کوئی طوفان ہے /ہم تو اِس ’’حکومت‘‘ کے ہاتھوں مر چلے!
The post شہباز حکومت کا ایک سال مکمل؛ چند تاثرات appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/AVpEz3T
Post A Comment:
0 comments: