کراچی: صوبائی وزیر ترقی نسواں سیدہ شہلا رضا نے اغوا کی گئی ام حبیبہ اورسحرگل کے والدین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ منظم گروہ سندھ سے کم عمر بچیوں کو پنجاب اور کے پی لے جارہے ہیں وہاں سندھ کی طرح قوانین نہیں ہیں اس لیے فوری ان کی شادیاں کرواکر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ان پر تشدد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بچیوں کے ذریعے والدین سے رقم کا تقاضہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بیرون ملک سے ٹیلیفون کالزکرکے دھمکارہے ہیں جبکہ پولیس انھیں برآمد کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
شہلا رضا نے کہا کہ ایسے واقعات میں زیادہ تروالدین کی جانب سے دیرسے واقعے کی رپورٹ کیے جانے یا پولیس کی سست روی اور ناقص تفتیش کے باعث بات جبری کم عمر کی شادی تک پہنچ جاتے ہیں یا بچیوں کوبالکل غائب کردیا جاتا ہے جو بہت خطرناک پہلوہے۔ اس موقع پر ایڈیشنل سیکریٹری محمد علی شیخ ودیگربھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔
پریس کانفرنس میں دونوں بچیوں کی والدہ نے بھی واقعات کی تفصیلات سے صحافیوں کو آگاہ کیا جبکہ ایڈووکیٹ الطاف کھوسو نے بھی صحافیوں کو بریفنگ دی۔
سیدہ شہلا رضا نے مزید کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی جو واقعات ہوئے ہیں، ان میں باقاعدہ پوری پوری فیمیلز پنجاب یا خیبر پختونخوا سے آتی ہیں اور چھوٹی عمروں کی بچیوں مختلف طریقوں سے ورغلا کربا آسانی سندھ کے بارڈرکراس کرلیتی ہیں سندھ کے قوانین کے مطابق لڑکی کی شادی 18سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل نہیں ہوسکتی لیکن پنجاب اور کے پی میں ایسے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے انھیں وہاں منتقل کرکے شادی کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے جس کے لیے قاضی سے لے کر گواہان تک سب تیاریاں پہلے سے مکمل ہوتی ہیں۔
سیدہ شہلا رضا انھوں نے مزیدکہاکہ 12 سالہ سحر گل کی والدہ کے مطابق سحر گل سے موبائل گیم کے ذریعے دوستی بڑھائی گئی اور پھر اسے نشہ آور شے لینے کا کہا گیا جس پر اس نے عمل کیا اورگھر سے جاتے ہوئے وہ گھر کے کاغذات، زیورات اور چالیس ہزار روپے بھی لے گئی جو جنوری سے لاپتہ ہے، فون پر سحر گل سے اسکی ماں کو کالز کروائی جارہی ہیں اوررقم کا تقاضہ بھی کیا جا رہا ہے،سحرکی والدہ نے رقم بھی بھیجی لیکن وہ تاحال واپس نہیں آئی ہے۔
والدین بچیوں کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات کی اطلاع 1094 نمبر پردیں
صوبائی وزیر ترقی نسواں کاکہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے کسی بھی واقعات کو محکمہ ترقی نسواں سندھ کی ہیلپ لائن نمبر 1094 پر فوری رپورٹ کریں تاکہ بروقت اقدام کے ذریعے بچیوں کی فوری بازیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
ماری ہیلپ لائن نمبر 1094 چوبیس گھنٹے کام کررہی ہے جس پرخواتین گھریلو تشدد اور متعلقہ واقعات سے متعلق واقعات کا اندراج کرواسکتی ہیں۔
ام حبیبہ کاپہلے ٹیلیفون کے ذریعے رشتہ مانگا گیا تھاپھروہ گھرسے غائب ہوگئی
صوبائی وزیر ترقی نسواں نے بتایاکہ اس طرح کا کیس 13 سالہ ام حبیبہ کا بھی ہے پہلے مختلف ٹیلی فون کالز کے ذریعے بچی کا رشتہ مانگا گیا لیکن والدہ نے بچی کی کم عمری کی وجہ سے رشتے انکار کردیا جس کے بعد مزید نئے نمبر سے براہ راست لڑکے نے کوشش کی اور انکار کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن بچی صبح اپنے گھر سے غائب تھی جب والدین نے تلاش کیا اور ناکامی پر اسی فون نمبر پر رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ بچی سہراب گوٹھ پر موجود ہے۔
والدین نے وہاں جاکر تلاش کیا اور گزرنے والی ایک ایک مسافر بس کی تلاشی لی لیکن بچی نہ ملی اور پھرانھیں بتایا گیا کہ بچی پنڈی میں ہے جس پر والدین نے پنڈی کی خاک چھانی جبکہ اسے لاہور میں رکھا گیا تھا۔
اب بچی پر تشدد کی وڈیو بھی بھیجی گئی ہے ،صوبائی وزیر
سیدہ شہلارضا نے بتایا کہ اب بچی پر تشدد کی وڈیو بھی بھیجی گئی ہے کہ بچی کی شادی ایک حافظ قرآن سے ہوئی ہے جو اب بچی پر جن اتارنے کے بہانے تشددکی وڈیوزدھڑلے سے بنا کر بھیج رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس ہو یا سندھ پولیس یا کے پی پولیس ایسے کیسزمیں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہے، یہاں تک کہ والدین پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات درج نہ کروائیں،اگر پولیس ٹھیک کام کررہی ہوتی تو میرپور ماتھیلوکی ماروی کو مقدمے کے اندراج کے لیے کراچی نہ آنا پڑتا۔
بطور صوبائی وزیر میں نے آئی جی پر دباؤ ڈالاتواس کے بعد مقدمہ درج ہوا ،بچی کے حوالے سے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے بھی بات ہوئی ہے جس پر انھوں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
The post منظم گروہ سندھ سے کم عمر بچیوں کو اغوا کرنے لگے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/jxCrAmu
Post A Comment:
0 comments: