فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی حملے جاری ہیں، عارضی جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اسرائیل کی فوج غزہ اور مغربی کنارے میں مسلسل اور بھرپور کارروائیاں کررہی ہے۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا نے ویٹو کردیا ہے جب کہ برطانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
اس پس منظر میں سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہوا ہے، فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے، گزشتہ روز مغربی کنارے کے ایک پناہ گزین کیمپ کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں چھ فلسطینی شہید ہونے کی اطلاعات ہیں،اسرائیل نے اس کارروائی کے دوران دو مطلوب فلسطینیوں کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
ہفتے کو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں فلسطین کے معروف شاعر، پروفیسر اور کتاب غزہ رائٹس بیک کے مصنف رفعت الیریر بھی شہید ہوگئے۔ اسرائیل نے ڈرون حملہ کرکے حزب اللہ کے حامی چار افراد کو مارنے کا بھی دعویٰ ہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ حماس کی جوابی کارروائی میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے دو اہلکار ہلاک ہوگئے۔
فلسطینی وزارت صحت نے جمعہ کو اعلان کیا ہے کہ اس جنگ میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد17ہزار487 ہوگئی ہے۔
برسلز سے جاری ایک بیان میں یورپی یونین نے حماس کے دو کمانڈروں 58 سالہ محمد دائف اور ان کے نائب مروان عیسیٰ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ القسام بریگیڈز کے ان کمانڈروں پر 7 اکتوبرکواسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائی میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ روز امریکا سمیت 10 ممالک کی غیر حاضری میں فلسطینیوں کے حق میں پانچ قراردادیں منظور کی تھیں، ان قراردادوں میں اسرائیلی جارحیت کی تحقیقات کرانے سمیت امدادی کاموں، بے گھر ہونے والوں کے اثاثوں کے تحفظ، یہودی آبادکاروں اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کے مطالبات کیے گئے تھے لیکن سلامتی کونسل میں امریکا کے ویٹو نے سب کچھ زیرو کردیا ہے۔
بہرحال فرانسیسی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان این کلیئر لوگاندے نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں ملوث اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
ایک جانب یہ سرگرمیاں جاری ہیں تو دوسری جانب برطانوی وزیر دفاع گرانٹ شیپس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کی جگہ حکومت سنبھالنے کے لیے فلسطین اتھاٹی کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے مشرق وسطیٰ میں امن بحالی میں مدد ملے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فلسطینی قیادت مزید تقسیم ہوگی اور ان کی آزادی کی تحریک متاثر ہوگی۔
غزہ میں عارضی جنگ بندی کا معاہدے کی بنیاد بہت کمزور تھی، بڑی مشکل سے چار روزہ جنگ بندی کو سات روز تک توسیع دی گئی لیکن سب کو پتہ تھا کہ جیسے ہی مدت ختم ہوگی ، جنگ دوبارہ شروع ہوجائے گی اور ایسا ہی ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ کا کوئی کونہ محفوظ نہیں ہے۔ غزہ میں 60 فیصد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن مستقل جنگ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کھل اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہیں حالانکہ عوامی سطح پر امریکا سمیت تمام مغربی ممالک میں اسرائیل کے خلاف شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان تمام ممالک کے عوام اپنے لیڈروں کی حکمت عملی کو مسترد کر کے یہ واضح کر رہے ہیں کہ غزہ پر بمباری بند ہونا چاہیے۔
انسان دوست متعدد یہودی تنظمیوں اور گروپوں نے بھی اسرائیلی جارحیت سے اظہار لاتعلقی کیا ہے بلکہ جنگ کے خلاف امریکا کے شہروں واشنگٹن اور نیویارک میں مظاہرے یہودی تنظیموں ہی نے منظم کیے تھے اور ان میں بہت بڑی تعداد میں یہودیوں نے حصہ لیا تھا۔
اسرائیل نے اس جنگ میں فلسطینی علاقوں میں قائم اسپتالوں پر بھی حملے کیے ہیں، جن میں مریضوں سمیت کئی ڈاکٹرز کی جانیں گئی ہیں، درسگاہوں پر بھی بمباری کی گئی ہے۔رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ یہ جنگ حماس نے شروع کی لہٰذا اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، امریکا اور یورپ بھی اسرائیل کے اس موقف کا قائل ہے۔ امریکا اور برطانیہ کا دہرا معیار دیکھیے کہ انھیں اسرائیل کا حق دفاع درست نظر آتا ہے لیکن فلسطینیوں کا دفاع دہشت گردی لگنے لگا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جان چاہے مسلمانوں کی جائے یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی، مساوی طور پر تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے تمام انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانیہ، یورپ اور امریکا جو خود کو انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار مانتے ہیں، مسلسل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) بھی مسلسل جنگ روکنے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم کی اپیل یا مطالبے کا اسرائیل نے کوئی اثر لیا ہے نہ امریکا اور مغربی یورپ نے۔ لگتا ہے کہ بعض ممالک اس انتظار میں ہیں کہ حماس کا یا تو پتہ صاف ہوجائے یا پھر اسرائیل پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوجائے، لیکن عالمی رائے عامہ کا پلڑا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں پلٹ گیا ہے اور دنیا بھر میں خاص طور پر مغرب میں جنگ بندی اور انسانی کمک کے لیے لاکھوں لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔
مسلم ممالک کا دو زاویوں سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے، ایک او آئی سی اور دوسرا اِسلامی ممالک کو انفرادی حیثیت میں، او آئی سی ایک موثر ادارہ نہیں ہے، او آئی سی نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی ہے، اقوامِ متحدہ کو ایکشن لینے کے لیے کہا ہے، مسلم دُنیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ غزہ کے لوگوں کو ریلیف پہنچایا جائے لیکن اس کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے حالانکہ یہ سب کچھ او آئی سی کے رکن ممالک بآسانی کر سکتے ہیں لیکن انفرادی طور پر مسلم ممالک کا کردار قدرے کمزور رہا ہے، مسلم ممالک کی حکومتوں نے دوٹوک انداز میں آواز نہیں اٹھائی ہے۔
اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ مسلم ممالک کمزور ہیں، مسلم ممالک میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، مصر، مراکش اور الجزائر جیسے طاقتور شامل ہیں لیکن اصل مسئلہ باہمی مفادات اور پراکسی جنگ ہے۔ مسلم ممالک کے اپنے اختلافات اتنے شدید ہیں کہ وہ ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل تنازع کا ایک قابل قبول حل اس خطے میں دو خودمختار اور آزاد ریاستوں کا قیام ہے، اس پر فلسطینیوں کی اکثریت بھی راضی ہو جائے گی اور اسرائیلی عوام کی اکثریت بھی اس حل کو قبول کرے گی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس حل کی حمایت کر چکی ہے۔ اس حل کی طرف بھی پیش رفت اس لیے نہیں ہو سکی کہ فلسطینیوں کی قیادت میں مختلف قسم کے اختلافات ہیں۔ اسی طرح مسلم ممالک میں بھی اختلافات ہیں اور وہ اپنی پراکسی فلسطینیوں کے نام پر جاری رکھتے ہیں۔
ان حالات میں عام فلسطینی کس کی طرف دیکھیں؟ عالمی نقشے میں مسلم ممالک کی تعداد ستاون ہے۔ دنیا بھر میں کل مسلم آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ بیشتر مسلم ممالک تیل اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن آپس میں تقسیم ہیں حالانکہ اسرائیل ہے جو تقریباً نوے لاکھ آبادی کا حامل ملک ہے، یہ مسلمان ممالک میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن مٹھی بھر آبادی کا حامل اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنی دھاک قائم کیے ہوئے ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ فلسطینی اشرافیہ امریکا، یورپ، بیروت اور قطر میں رہائش پذیر ہیں‘ کئی امیر فلسطینی اردن کے دارالحکومت امان میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ عام فلسطینی شہری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں یا اسرائیل کے زیرکنٹرول علاقوں میں ڈرے سہمے رہنے پر مجبور ہیں۔
اصولی طور پر دیکھا جائے تو تنازع فلسطین کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر عام فلسطینی ہیں۔ ان کے جان و مال کے تحفظ سب سے اہم ہے۔ فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے اندر نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینی قیادت کو ان معاملات پر بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے کہ ان کی نظریاتی تقسیم عام فلسطینیوں پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے۔
اس لیے وقت کی ضرورت یہی ہے کہ فلسطینی قیادت اپنے نظریاتی اور سیاسی اختلافات ختم کرکے متحد ہو کیونکہ عالمی سیاست اور معاشیات میں کوئی کسی کا بھائی یا دوست نہیں ہوتا۔ بجائے اس کے کہ فلسطینی قیادت امریکا اور یورپ پر تنقید کرے، مشرق وسطیٰ کے طاقتور مسلم ممالک کی پراکسی بن کر ایک دوسرے پر تنقید کرے، فلسطینی قیادت کو چاہیے کہ وہ صرف فلسطین کے عوام کے بارے میں سوچے تب ہی وہ اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔
The post عام فلسطینی عوام کے بارے میں سوچیں! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/Xc6Gh4s
Post A Comment:
0 comments: