Navigation

دہشت گردی کی لہر

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ کے دو واقعات میں آٹھ اسکول اساتذہ جاں بحق ہوگئے۔ ادھر شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلہ میں پاک فوج کے چھ جوان شہید جب کہ تین دہشت گرد مارے گئے۔

ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سرحدی علاقوں میں ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا دوبارہ مضبوط ہونا ہے، قبائلی اضلاع بارڈر کے قریب ہیں، اس لیے وہاں صورت حال خراب ہو رہی ہے جب کہ جنوبی اضلاع بھی ان قبائلی علاقوں سے متصل ہیں۔

ضرب عضب اور اس کے بعد آپریشن رد الفساد کے نتیجہ میں دہشت گردی کا کم و بیش خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی یقیناً ان کے سلیپنگ سیلز ہوں گے لیکن موجودہ دہشت گردی کی لہر بے وجہ نہیں آئی بلکہ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں کہ جن کا انکار بھی ممکن نہیں ہے۔

افغانستان میں جب طالبان حکومت قائم ہوئی تو ہر محب وطن شخص نے اس وقت کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ہمیں محتاط ہو جانا چاہیے لیکن ہم محتاط کیا ہوتے تحریک انصاف کی حکومت نے جو کام کیا اس کے بعد یہی سب ہونا تھا۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔

اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں ،انھی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھر بھر کر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں۔

جو لوگ گزشتہ 45 سال سے تزویراتی گہرائیوں کے چکر میں افغانستان کے عشق میں مبتلا ہیں اور اس نامراد عشق نے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن ان کا عشق جو در حقیقت اربوں ڈالر کی جہاد انڈسٹری کے گرد گھومتا ہے۔ 70ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی المناک موت اور کھربوں ڈالر کی معیشت کو نقصان کے بعد بھی ان کا عشق ختم نہیں ہوا۔

افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو اب واپس پاکستان آ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان مخالف قوتیں پاکستان میں شر پسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور معاشی طور پر تباہ حال ہو جائے اور بین الاقومی معاشی نظام سے کٹ جائے۔

یہاں تک کہا گیا کہ دیوالیہ پن کے بعد اور پاکستان کی معاشی بدحالی کے بعد پاکستان کے پاس صرف نیوکلیئر اثاثے بچے ہیں جس پر اس کے بعد سودا کیا جائے گا۔ بھارت اور پاکستان مخالف قوتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان کا امن خراب کیا گیا تو انڈیا کے اندر بھی امن نہیں رہ سکتا اور علاقائی امن بھی نہیں رہ سکتا۔

علاقائی امن کے لیے ایک دوسرے کے ملکوں میں مداخلت کو بند کرنا ہو گا اور دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی ختم کرنا ہوگا تاکہ ان کے اپنے ملکوں میں بھی امن رہ سکے، پاکستان نے دنیا کے امن کے لیے لاکھوں لوگوں کی جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور امریکا کی طالبان کے ساتھ جنگ میں پاکستان قربانیاں دیتا رہا یہ پاکستان کی جنگ نہیں تھی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کے بعد اُن کے سلیپر سیل وقتاً فوقتاً کارروائیاں کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، تاہم ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال کنٹرول میں ہے۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے اثرات نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ عالمی طور پر یورپ اور امریکا پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں اگر اس دہشت گردی کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو اس کے اثرات پوری دنیا پر نظر آئیں گے اور دہشت گردی کی لہر مختلف ممالک میں ایکٹیو ہو جائے گی جس سے معاشی بدحالی اور خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گی۔

جب عدلیہ بحالی تحریک چل رہی تھی تو ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد محب وطن لوگوں کی جانب سے ایک بیان ضرور دیا جاتا تھا کہ دہشت گردی اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ عوام کو انصاف نہیں ملتا۔ جب عدلیہ بحال ہوگئی انصاف ملا اور دہشت گردی کا سلسلہ پھر بھی دراز ہوتا چلا گیا تو ایک اور موقف سامنے آیا کہ عوام کو روز گار نہیں ملتا اور غربت ہی دہشت گردی کی اصل وجہ ہے۔

اس کے بعد یہ سب کچھ سی پیک منصوبہ کو سبو تاژ کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا دہشت گردوں کے وکیلوں نے اس دور میں ایک ایسا سدا بہار جواز تراشا تھا کہ اس کے جھانسے میں اچھے خاصے معقول انسان بھی آ گئے کہ دہشت گردی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ہم نے ڈرون حملوں کے لیے امریکا کا ساتھ دیا ہے۔ جن لوگوں نے اس جواز پر یقین کیا ان کی حماقت کے کیا کہنے ۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں برس اپریل کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 23 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اپریل میں عسکریت پسندوں نے 48 حملے کیے جن کے نتیجے میں 68 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 55 افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اپریل میں سیکیورٹی فورسز نے بھی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 41 عسکریت پسند ہلاک اور 40 گرفتار کر لیے گئے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا مرکز رہا جہاں انھوں نے 30 عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا اور 14 کو گرفتار کرلیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ خیبرپختونخوا دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا جہاں اپریل میں ہونے والے 49 فیصد حملے رپورٹ کیے گئے۔

ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کے باعث بم پروف اور بلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری کے رحجان میں 40 فیصد سے زائد کا اضافہ ہو گیا ہے جب کہ ملکی سطح پر بھی گاڑیوں کو بلٹ اور بم پروف میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ خبروں کے مطابق خیبر پختو نخوا میں سیاستدانوں، صنعتکاروں، تاجروں اور اہم ترین سرکاری شخصیات کی جانب سے بم پروف اور بلٹ پروف پرائیویٹ گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

اِس وقت پشاور کے مختلف علاقوں کے علاوہ مردان، چارسدہ، خیبر اور مہمند سمیت دیگر بندوبستی اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بم پروف اور بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ بم پروف اور بلٹ پروف گاڑیوں کا رجحان 2010کے دھماکوں کے بعد شروع ہوا تھا لیکن حالیہ دنوں میں بھتہ خوری اور اغواء کی وارداتوں میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں کی خریداری بھی بڑھ رہی ہے۔

اِس قسم کی گاڑیاں بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی رہی ہیں تاہم اب مقامی سطح پر لینڈ کروزر گاڑیوں کو بلٹ اور بم پروف گاڑیوں میں تبدیل کیا جانا معمول بنتا جا رہا ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ سیکیورٹی کی فضاء کو بہتر بنائے کہ بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں مخصوص اشخاص کو تو تحفظ دے سکتی ہیں، عوام کی بھاری تعداد اِن کی پناہ نہیں لے سکتی۔

تحریک طالبان کے ساتھ مفاہمت کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے یہ دہشت گرد اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں اور یہ پاکستان کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو جس طرح افواج پاکستان ، پولیس اور اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار پوری طرح ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور اس کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ نڈر فورس موجود ہے اور جدید ساز و سامان کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کو مستقل امن کا گہوارہ بنانے کے لیے علماء کرام ، معاشرے کے تمام سنجیدہ اور بااثر طبقات کو آگے آنا ہو گا۔

The post دہشت گردی کی لہر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/nwsWSV3
Share

Post A Comment:

0 comments: