ادب صحافت نہیں ہے کہ جو دکھائی دے، اسے رپورٹ کر دے لیکن صحافت کے برعکس اس کے سینے میں دل ہے جہاں درد سوا ہوتا ہے۔
شاعر ہو یا ادیب، اس طرح کے ماحول میں بے کل ہو کر تڑپ اٹھتا ہے۔ پاکستان کو ان دنوں جس گرداب میں پھنسا دیا گیا ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، حساس دل اس پر پریشان ہیں۔ اس قسم کی صورت حال میں عام آدمی کے ردعمل کا طریقہ اپنا ہے جب کہ حساس دل یعنی دانش ور اور شاعر کا نظام فکر مختلف ہے۔
ایسی کیفیات میں ان کا تخلیقی عمل متحرک ہو کر ایسی بات کہہ دیتا ہے، عام حالات میں جس کا کہنا آسان نہیں ہوتا۔ پروفیسر جلیل عالی ہمارے عہد کے ممتاز شاعر ہیں جنھوں نے اردو اور پنجابی شاعری میں اچھوتے تجربات کیے ہیں۔ ان کے کلام میں شاعری کے مقبول موضوعات بھی اگرچہ بہ درجہ اتم پائے جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی شہر آشوب کا مضمون بھی بہت خوبی کے ساتھ جگہ پاتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی، جمہوری اور آئینی اداروں کو جب سے پامال کرنے کی حالیہ مہم چلی ہے، ان کا حساس دل تب سے بے قرار ہے اور وہ ان موضوعات پر مسلسل اظہار خیال کر رہے ہیں۔
‘نقد امروز’ کے عنوان سے وہ روزانہ کچھ نہ کچھ کہتے ہیں اور سوشل میڈیا کے توسط سے اسے اپنے قدردانوں کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ ان کے یہی نقد امروز اگر مرتب کر دیے جائیں تو ایک ضخیم مجموعہ وجود میں آ جائے اور مرزا غالب کے خطوط کی طرح اپنے عہد کے دکھوں کا ترجمان ہو جائے۔
پاکستان کا تازہ دکھ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان کشمکش کی وہ کیفیت ہے جس کی بڑھتی ہوئی وسعت سے سب کچھ بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے عالی صاحب کو اسی کیفیت نے پریشان کیا تو انھوں نے کہا ؎
بکھر کے رہ گئی ہے نظمِ شہر کی ترتیب
سب اپنی اپنی حدِ کار سے نکل گئے ہیں
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے محرومی کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے نئی حکومت پر دبا ڈالنے کا جو طریقہ بھی اختیار کیا، ناکام رہی۔ نہ جلسے جلوس کے ذریعے دبا ؤڈالا جا سکا اور نہ کوئی ایسی منظم تحریک ہی چلائی جا سکی جو حکومت کو مجبور کر سکتی۔
ایسی صورت حال میں عمران خان کے پاس شاید واحد راستہ یہی رہ گیا تھا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دیں تاکہ وفاقی حکومت کو دباؤ میں لانے کا جو کام خود ان کی جماعت نہیں کر سکی، اسے دیگر ذرایع سے کرایا جا سکے ۔
ایک عام آدمی اس نتیجے پر کیسے پہنچا، یہ کارنامہ بھی خود عمران خان نے ہی انجام دیا ہے۔ انھوں نے ایک سے زاید بار اپنے بیانات میں یہ کہنا مناسب سمجھا ہے ہم سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑے ہیں لہٰذا اس وقت عمران خان ہوں، ان کی جماعت ہو یا وہ دانش ور جن کا ذہن اور قلم ہمیشہ آمریت کے قصیدے رقم کرنے کے لیے مخصوص رہا، تن من دھن سے اپنی دانست میں ایک ادارے کے پیچھے آ کھڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ پارلیمنٹ بالادست نہیں ہوتی، آئین بالادست ہوتا ہے اور اس آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کو تو حاصل نہیں لیکن ہر اس جارح کو حاصل ہے جو جب چاہے، اپنے مفادات کے مطابق اسے از سر نو لکھ ڈالے۔ ماضی و حال میں اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اس دلیل کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی کتابیں اور صحائف تو بالادست ہیں لیکن جس ذات والا صفات نے انھیں تخلیق کیا، اس کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے پر ہم آمادہ نہیں ہیں۔
یہ گھوڑا پیچھے، گاڑی آگے کی مثال والی بات ہے جس کا واحد مطلب یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس قسم کی کیفیت میں کوئی حساس شاعر یہی کہہ سکتا ہے کہ نظم شہر کی ترتیب بکھر گئی ہے اور ہر کوئی اپنے حدود کار سے نکل کر دوسرے کی حدود میں تجاوز کر چکا ہے یا ایسا کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ بھی یہی ہے اور ہمارا تلخ تجربہ بھی یہی ہے۔ اس وقت خاص طور پر پنجاب میں انتخاب کرانے کے لیے جو ہتھ کنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں، ان سے بھی یہی واضح ہے لیکن تاریخ کے اس مرحلے پر کچھ مختلف بھی ہو رہا ہے۔ قومی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان کی پارلیمان اپنے اختیار کے تحفظ کے لیے بھرپور مزاحمت کر رہی ہے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے برادر محترم وجاہت مسعود سے بات ہو جاتی تو ممکن ہے کہ تاریخ میں ایسی مزاحمت جیسی کوئی دوسری مزاحمت کی مثال بھی یہاں درج ہو پاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ لمحہ موجود میں پارلیمان کی مزاحمت منفرد، یادگار اور تاریخی ہے۔ پاکستان کی پارلیمان اس وقت جو کردار ادا کر رہی ہے، ہماری آیندہ نسلوں کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کیوں کہ اسی مزاحمت کی کامیابی ہی انھیں آیندہ سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ اور موقع فراہم کرے گی۔
ہمارے موجودہ سیاسی منظر نامے کا ایک ممتاز پہلو پارلیمان کی مزاحمت ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں پہلی بار کچھ مختلف بھی ہو رہا ہے۔
اس منظر نامے میں اطمینان کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس بار ریاستی اداروں میں سے بھی بعض وہ قوتیں عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمان کی پشت پر اکھڑی ہوئی ہیں، ماضی میں جن کا طرز عمل مختلف رہا ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا پارلیمنٹ میں دیا جانے والا بیان غیر معمولی ہے۔ ان کا کہنا ہے:
‘ طاقت کا محور عوام ہیں آئین کہتا ہے اختیار عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال ہوگا منتخب نمایندے منزل کا تعین کریں،پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔’
یہ بیان موجودہ سیاسی منظر نامے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہد موجود میں جمہور کو روندنے کی ہر کوشش اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے اور آئین، قانون اور پارلیمان کی بالادستی کے ضمن میں آخری اور حتمی فیصلہ پارلیمان کا ہوگا، اس کے مقابل آنے والی ہر قوت کے مقدر میں ناکامی لکھی ہے۔
جو اماں ملی تو کہاں ملی
بریگیڈیئر صولت رضا صاحب کو بہ طور فوجی افسر تو ہم نے بعد میں جانا، بہ طور ادیب پہلے پڑھا، بس اسی نسبت سے ازخود ہی ان کے ساتھ ایک رشتہ بھی وجود میں آگیا۔ یہ رشتہ الحمدللہ اب دو طرفہ ہے۔ ان کی مختصر سرگزشت ‘پیچ و تاب زندگی’ آئی رکھی ہے جس پر گہری نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام آیندہ پر اٹھا کر اس بار ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے مختصر سفرنامے ‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی’کا ذکر کرنا ہے۔
ہمارے دوست علامہ عبدالستار عاصم اور ڈاکٹر صاحب میں ایک قدر مشترک ہے۔ اول الذکر سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر کتابیں چھاپتے چلے جاتے ہیں اور ثانی الذکر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اصل میدان مزاح ہے۔ حلقہ احباب نثر اور اس کی مدار المہام آپا نعیم فاطمہ علوی صاحبہ کی مہربانی سے ان سے ملاقات کا موقع ملاتھا۔ یہ شخص سرتاپا مزاح ہے۔
غالب نے اپنے خطوط کے بارے میں کچھ ایسی بات کہہ رکھی ہے کہ خط تو مجھے لکھنا ہے گرچہ مطلب کچھ بھی ہو، مزاح کے باب ڈاکٹر ورک پر بھی یہی بات پوری اترتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس بار سفر حرمین کے ساتھ منصہ شہود پر آئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے یہ سفر عشق و مستی اور جذب و کیف کا عنوان ہے۔ ان تمام کیفیات کے ساتھ اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب کی حس مزاح بھی لطف دیتی ہے۔ یوں یہ سفر نامہ اپنے موضوع پر دیگر سفرناموں سے مختلف ہو جاتا ہے۔
The post آخری مکا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/Ux2FPX4
Post A Comment:
0 comments: