Navigation

کوچۂ سخن

غزل
گھرا تھا نیند میں خوابوں نے راستہ نہ دیا
مجھ ایک لمحے کو صدیوں نے راستہ نہ دیا
میں سبز رنگ پہاڑوں میں اسم پڑھتا رہا
نکلنا چاہا تو پیڑوں نے راستہ نہ دیا
کواڑ کھولنا چاہا صبا نے صبحِ وصال
اداس بیل کے پھولوں نے راستہ نہ دیا
میں تیرے دستِ حنائی سے بھیک لے نہ سکا
ترے فقیر کو لوگوں نے راستہ نہ دیا
وہ ڈھونڈتا ہوا آیا تھا میرے دل کی گلی
پڑوسیوں کے مکانوں نے راستہ نہ دیا
فلک کو جاتی غریبوں کی بد دعاؤں کو
فضا میں اڑتے جہازوں نے راستہ نہ دیا
(فیضان احمد۔جہلم)


غزل
زندگی تھی ہی نہیں، زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے
جب بھی ناکام ہوا میں تو مرے کام آئے
وہ زمانے جو کسی عرصۂ برباد کے تھے
(مقصود وفا۔ فیصل آباد)


غزل
اتنے اچھے کدھر گئے سب لوگ
تیرے دل سے اتر گئے سب لوگ؟
اس قدر شور تھا مرے دل میں
ڈر گیا میں تو ڈر گئے سب لوگ
جانے کیسے کیے تھے سب وعدے
جانے کیسے مکر گئے سب لوگ
میں تو ہر اک کے ہاتھ چومتا تھا
مجھ سے بھی ہاتھ کر گئے سب لوگ
ٹوٹتا دیکھ کر مجھے شاہدؔ
ساتھ میرے بکھر گئے سب لوگ
(شاہد ریاض۔ ڈیرہ غازی خان)


غزل
پھول دلوں میں بو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
مل کر کیسے کھو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
پیار وفا کے خواب ہماری آنکھوں کو دے کر
افسانہ پھر ہو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
اپنے لبوں پر پھولوں سی مسکان سجائے
دکھ میں عمریں ڈھو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
روشن سپنے بجھتی آنکھوں میں بھی ساتھ لیے
ابدی نیندیں سو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
کومل جیسے ہاتھوں میں تھے کتنے پھول عمیرؔ
دل میں خار چبھو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
(عمیر جوئیہ۔ مریالی، ڈیرہ اسمعیل خان)


غزل
خواب لکّھوں یا کسی خواب کے ارماں لکھوں
داستاں تیری میں کیا دیدۂ حیراں لکھوں
سوزِ فرقت میں ترے ڈوبتے سورج دیکھوں
چاک پھر صحرا نوردوں کے گریباں لکھوں
زرد موسم میں تجھے آس کا بادل سمجھوں
دشتِ ہجراں میں تجھے سبزۂ درماں لکھوں
تو جو خاموش ہو چھا جائے دو عالم میں سکوت
تو جو بولے تو تجھے شورشِ اِمکاں لکھوں
تو ہی محور ہے مرے دائرہ ہستی کا
جان ہر خط کی تجھے جلوۂ جاناں لکھوں
میں نے سرمد اُسے لکھّا تو بہت ہے لیکن
جی میں آتا ہے ذرا اور نمایاں لکھوں
(شاہ نواز سرمد۔محمد پور دیوان،ضلع راجن پور)


غزل
ضبط سانسوں پہ کھو رہا ہوں میں
عازم عشق ہو رہا ہوں میں
میرے رونے پہ ہنس رہا ہے تو
تیرا رونا ہی رو رہا ہوں میں
تیرے گالوں پہ میرے آنسو ہیں
پھول شبنم سے دھو رہا ہوں میں
ماں کی گودی میں سو کے لگتا ہے
جیسے جنت میں سو رہا ہوں میں
تیرے جوڑے سے خوشبو ٹپکی ہے
اس میں دامن بھگو رہا ہوں میں
لوگ میری برائی کرنے لگے
یعنی مشہور ہو رہا ہوں میں
میری آنکھوں سے پھوٹیں گے اک دن
زخم سینے میں بو رہا ہوں میں
گو نہیں ہوں تیری حقیقت پر
تیرے خوابوں میں تو رہاہوں میں
اب مبشر یہ کون مانے گا
وہ نہیں ہوں کہ جو رہا ہوں میں
(محمد شاہد مبشر۔ کوٹلہ جام، بھکر)


غزل
گھڑی کی ہلکی سی ٹک ٹک گراں گزرتی ہے
اندھیری رات اکیلے کہاں گزرتی ہے
نکل کے خواب کی دنیا سے آ حقیقت میں
نہیں تو عمر مری رائگاں گزرتی ہے
اسی کے دل پہ اسے ہاتھ رکھ کے سمجھایا
کہ تیری چپ سے ہمارے یہاں گزرتی ہے
کہ جس پہ گزری نہ ہو وہ کہاں سمجھتا ہے
وہی سمجھتا ہے جس پر میاں گزرتی ہے
سنا ہے جب سے وہاں یار مشکلات میں ہے
ہماری جان پہ مشکل یہاں گزرتی ہے
کوئی تو روک لو جاتے ہوئے پرندوں کو
انہیں بتاؤ کہ اب تو خزاں گزرتی ہے
ہمارے کمرے نہیں ہیں کشادہ قبریں ہیں
کہ جن سے بَین کی صورت اذاں گزرتی ہے
وہ ایک شخص مرے گھر سے کیا گیا تحسینؔ
ہوا بھی صحن سے نوحہ کناں گزرتی ہے
(یونس تحسین۔علی پور چٹھہ)


غزل
صدا گلوں کی سنی نہیں تھی
صبا چمن میں رکی نہیں تھی
اداس ہو کر میں رہ گیا تھا
مگر وہ حد سے بڑھی نہیں تھی
کچل رہی تھی ہوا دیے کو
ٹھہر ٹھہر کر چلی نہیں تھی
مچل مچل کے میں رہ گیا تھا
نظر نظر سے ملی نہیں تھی
صدائیں دی تھیں اسے ہزاروں
مگر وہ پیچھے مڑی نہیں تھی
دکھائی اوقات پھر بھی اس نے
کہ پاس اس کے گھڑی نہیں تھی
مجھے ستایا گیا تھا احمدؔ
مری کسی پر چلی نہیں تھی
(احمد معاذ۔راولپنڈی، کہوٹہ)


غزل
میں سورج کو بھی دیکھو آئینہ اس دم دکھاتا ہوں
تیرے چہرے پہ بکھرے بال میں جس دم ہٹاتا ہوں
محبت تو نے جو دی ہے مجھے اک درد کی دولت
یہ وہ اندھی کمائی ہے جو رو رو کر لٹاتا ہوں
میں حسن یار کا گھائل مصور ہو گیا ہوں کیا
خیالوں میں کبھی آنکھیں کبھی وہ لب بناتا ہوں
شب ہجراں تڑپتا ہے، بہلتا ہی نہیں یہ دل
میں اس معصوم بچے کو تھپکتا ہوں مناتا ہوں
میری سوچیں مقید ہیں کسی اک حور کے ہاتھوں
کہ اس کی سوچ غالب ہے میں سب کچھ بھول جاتا ہوں
(عامر معان۔ کوئٹہ)


غزل
یوں ہے ترے خیال سے اشعار کا وجود
جیسے ہے اینٹ، اینٹ سے دیوار کا وجود
قربت کے اک حصار نے گھیرا تو یوں لگا
جیسے بہشت میں ہو گنہ گار کا وجود
پرکار کا وجود ہے نقطے کا اک نشان
نقطے کا اک نشان ہے پرکار کا وجود
ہے آپ کے خیال میں سانسیں مری رواں
دیوار سے ہے سایۂ دیوار کا وجود
تکیے تلے سمیٹ کے رکھتا ہوں خام خواب
بُنتا ہوں روز رات کو دو چار کا وجود
فیضان ؔدیکھ سکتی نہیں ہے ہر ایک آنکھ
ابہام میں رکھا ہوا آثار کا وجود
(فیضان فیضی۔موسٰی کہوٹ، چکوال)


’’محبت‘‘
چلو میں مان لیتا ہوں
تمھیں چاہت نہیں مجھ سے
تمھیں الفت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں
ذرا یہ تو بتاؤ تم
کسی محفل میں کوئی بھی
مرا جب نام لیتا ہے
تو تم کیوں چونک جاتے ہو؟
کہو، کیوں آہ بھرتے ہو؟
گلی میں کوئی بھی بچہ
مری جب بات کرتا ہے
قدم کیوں روک لیتے ہو؟
ذرا چل کر، ذرا رُک کر
مرا وہ تذکرہ سن کر
نظر کیوں بھیگ جاتی ہے؟
کوئی مجھ کو بُرا کہہ کر
کبھی جو مسکراتا ہے
تو تم کیوں منہ بناتے ہو؟
کہو، کیوں روٹھ جاتے ہو؟
مرے دشمن سے تم اکثر
مرے بارے میں لڑتے ہو
مرے احباب سے اکثر
بہت انجان سا بن کر
مرا کیوں ذکر کرتے ہو؟
اکیلے میں مری غزلوں کو تم کیوں گنگناتے ہو؟
زبردستی کیوں آنکھوں کو چھلکنے سے بچاتے ہو؟
اگر یہ کر نہ پاتے ہو تو کیوں آنسو بہاتے ہو؟
تم اکثر چھت پہ جاتے ہو
تو کیوں تاروں کو تکتے ہو؟
اکیلے چاند سے اکثر
مخاطب تم کیوں رہتے ہو؟
سُنا ہے تم یہ کہتے ہو
کہ ’’میں بالکل اکیلا ہوں‘‘
تو کیوں یہ بات کرتے ہو؟
مجھے معلوم ہے اب بھی
کتابِ دل میں اب تک بس مرا ہی نام لکھا ہے!
تمھیں مجھ سے محبت تھی
تمھیں مجھ سے محبت ہے
فقط مجھ سے محبت ہے
چلو میں مان لیتا ہوں
تمھیں چاہت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)


غزل
جانے کدھر کے لوگ تھے جانے کدھر گئے
وعدے کیے تھے جتنے سبھی سے مکر گئے
منزل ہمارے پیار کی کچھ دور تو نہ تھی
خاطر اسی کی عشق میں اس کے نگر گئے
آساں نہیں ہے عشق کا رستہ یہ جان لو
مشکل ملے گی راہ میں جو تم ادھر گئے
چاہت کی آگ دل میں تھی جلتی رہی بہت
چاروں طرف ہی آگ کے جانم شرر گئے
مدت لکھی تھی جینے کی اللہ نے اس جہاں
دوجے جہاں کے راستے آخر بشر گئے
(احمد مسعود قریشی ۔ملتان )

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے،
کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/1Xmajy5
Share

Post A Comment:

0 comments: