طاقت ور ہوجانا اصل کامیابی نہیں، بلکہ اصل کامیابی یہی ہے کہ آپ طاقت، اختیار اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنا رویہ کیسا رکھتے ہیں۔ یہ رویہ آپ کی کامیابی یا ناکامی کی راہ متعین کرتا ہے۔
آپ طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے رویے میں نرمی لاتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں تعمیری سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں تو نا صرف آپ کی طاقت معاشرے کو فلاح کی راہ پر گامزن کر دیتی ہے بلکہ آپ کی اپنی ذات پر بھی مثبت اثر چھوڑتی ہے۔ طاقت کے حوالے سے انفرادی شخصیات، ادارے اور ممالک کے علاوہ ممالک پر مشتمل گروپ بھی ہوسکتے ہیں۔
سادہ سی مثال ملاحظہ کیجیے۔ کسی بھی دفتر کا چپڑاسی سائلین پر اپنی طاقت کا رعب جماتا ہے۔ چھوٹا کلرک اس چپڑاسی پر اپنی طاقت کا سکہ چلاتا ہے۔ ہیڈ کلرک اس چھوٹے کلرک کو سکون کا سانس نہیں لینے دیتا اور بابو کی توپوں کا رخ ہیڈ کلرک کی جانب ہوتا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ (چھوٹا منیجر، فورمین وغیرہ) اپنی دھاک ہیڈ کلرک پر بٹھاتے ہیں، اس سے اوپر افسری کا پیمانہ تبدیل ہوکر ڈائریکٹر صاحبان اور سیکریٹری و وزرا تک جاتا ہے، جب کہ کارپوریٹ کلچر میں یہ کڑیاں منیجر، جنرل منیجر، ڈائریکٹر یا مالکان تک جاپہنچتی ہیں۔ طاقت کو اپنے اختیارات کا مرکز بنانے والے دفاتر ہوں یا کمپنیاں، گروہ اور ممالک، ہر جگہ ہی آپ کو پیشانی پر بل، مشکلات کا بڑھنا، کام کا رکنا، افراد کا نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا عام ملے گا۔ اس کے برعکس جہاں پر طاقت کے نشے میں گم ہونے کے بجائے، طاقت کو فلاح کا مرکز بنایا جانا عمومی رویہ ہو، وہاں حالات قدرے بہتر ہوں گے۔ طاقت حاصل ہوتے ہوئے عقل کا استعمال عام افراد سے لے کر اشرافیہ تک، اور گروہ سے لے کر ممالک تک جاتا ہے۔
پاکستان کے معروضی حالات میں ہر رویہ عام روش سے ہوتا ہوا ہر حال میں سیاست تک ضرور جاتا ہے۔ آج کل موضوع بحث عمران خان، قاسم علی شاہ اور ان کی ملاقات ہے۔ تبدیلی کی توپوں کا رخ قاسم علی شاہ کی جانب ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس شخص کی کچھ باتیں تبدیلی کے سرخیلوں کو بری لگ گئیں۔ بنیادی بات پاکستانی معاشرے میں یہ ہے کہ یہاں ہمیں موٹیویشن سے زیادہ دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے، ہم آئیڈیاز یا تخیلات کے بجائے عملی سطح پر چیزوں کو پرکھنے کے زیادہ عادی ہیں اور کسی کی ذات کو تنقید کا نشانہ تب بنایا جاسکتا ہے جب خود کردار کی بلندی پر فائز ہوں۔ اسی لیے قاسم علی شاہ ہوں یا نیلسن منڈیلا کی مثال دیے جانا ہو، بحث عبث ہے۔ بعد از گرفتاری فواد چوہدری بھی اپنا موازنہ بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا سے کر رہے ہیں۔ یہاں ہم صرف عمران خان اور ان کی طاقت کا ذکر کرتے ہیں۔
نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نا صرف ایک طویل قید کاٹی بلکہ پھر طاقت بھی حاصل کی اور اقتدار میں آئے۔ لیکن حیران کن طور پر غلامی کی چھاپ لیے ہوئے معاشرے میں ان کی طاقت کبھی کسی کے خلاف بطور انتقام استعمال نہیں ہوئی۔ اقتدار سنبھالتے ہی سفید فام طبقے کے حوالے سے ان کا نرم رویہ حیران کن تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ آج ترقی کررہا ہے۔ اس کے برعکس آپ عمران خان کی ذات کو سامنے رکھیے۔ بائیس سالہ جہدوجہد کا خاتمہ ترین و علیم کے جہازوں پر ہوا۔ بھر بھر کر تبدیلی کے کھلاڑی لائے گئے۔ حیران کن طور پر اس پورے عمل کو جمہوری بھی کہا گیا اور بہترین بھی۔ آزاد پنچھی لانا غیر جمہوری رویہ نہیں تھا، لیکن جہازوں کی جس طرح تشہیر کی گئی اس سے ایک بات یقینی ہوگئی کہ کہانی گنتی سے شروع ہوکر یقیناً گنتی پر ختم ہوتی ہوگی۔ بہرحال طاقت مل گئی۔ لیکن اس طاقت کو حاصل کرنے کے بعد کیا ہوا؟
پاکستانی معاشرے کا باشعور طبقہ یقینی طور پر اس بات کا حامی تھا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اہم ہے۔ کرپشن کے راستے روکنا ضروری ہے۔ معاشی لحاظ سے پاکستان کو آگے لے جانا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن نہیں جناب! ہم نے بائیس سالہ جہدوجہدِ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کےلیے کی ہی نہیں تھی، بلکہ ہمارا مقصد ہی بس طاقت کا حصول تھا، جس کےلیے ہم نے ہر حربہ آزمایا۔ عمران خان نے پہلی تقریر کے برعکس چن چن کر انتقامی سیاست کےلیے لوگ ڈھونڈے۔ یہ امر یقینی طور پر اہم ہے کہ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری، انگلیاں اٹھتی ہیں، اور اٹھیں گی بھی کہ انہوں نے ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا، لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ پہلے ملک کو مضبوط بناتے پھر چوروں پر بھی ہاتھ ڈالتے۔ واویلا شروع کردیا گیا، چن چن کر من پسند افراد کو عہدے دیے جانے لگے، جو اس سے پہلے بھی ہورہا تھا۔ معاشی ٹیم؟ پچاس لاکھ گھر؟ ایک کروڑ نوکریاں؟ ایشین ٹائیگر؟ اقوام عالم میں مقام؟ متنازع معاملات میں مضبوط موقف؟ یہ سب تو تب ہوتا جب عمران خان طاقت حاصل کرنے کے بعد عاجزی سے ملک کی خدمت کو اپنا شعار بناتے۔ نہ تو واضح لائحہ عمل تھا اور نہ ہی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کےلیے کوئی سمت، لہٰذا ایک ہی ایجنڈا باقی بچا غصہ، غصہ اور صرف غصہ۔
اور کچھ نہ ہوا تو بیوقوفانہ فیصلے کیے جانے لگے۔ ترقی کی طرف توجہ کے بجائے سیاسی انتقام کی جانب سوچ کے پیادے دوڑا لیے گئے۔ عقل کے اندھے اس حقیقت سے دور ہوگئے کہ تین سال کم از کم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے اور اس کے بعد چن چن کر چوروں کو سولی پر لٹکا دیتے تو آپ کی واہ واہ بھی ہوتی اور عالمی برادری میں نام بھی۔ لیکن حال یہ ہے کہ پلستر زدہ ٹانگ کے علاوہ انتخابی مہم میں کچھ دکھانے کو نہیں۔ اور موازنہ اپنا مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا سے۔
بے پناہ عوامی وسائل سیاسی انتقام میں جھونک دیے گئے اور حال یہ رہا کہ خیبرپختونخوا کا ہیلی کاپٹر غیر قانونی استعمال کرتے رہے اور بچنے کےلیے قانون سازی کرنا پڑگئی۔ بنی گالہ کی ریگولرائزیشن؟ ارے چھوڑیے صاحب! کیا یہی تبدیلی تھی؟ یہی کامیابی تھی؟ طاقت اسی لیے حاصل کی گئی تھی؟ اور دعوے بس دعوے ہی تھے؟ کہاں ہیں سرکاری عمارات میں درسگاہیں؟ کہاں ہیں بھینسوں کی نیلامی سے لائی گئی کامیابی؟ کہاں ہیں دو سو ڈیم؟ کہاں گیا مرغی پالیسی سے لایا گیا انقلاب؟ کہاں بنے ہیں لاکھوں گھر؟ نوازے جانے والے کھلاڑی آج کل کہاں ہیں؟ موجودہ حکومت کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔ لیکن کیا عمران خان کے پاس اس حکومت کے خلاف مہم کےلیے کوئی ایسا مثبت کام ہے جو انہوں نے اپنی حکومت میں سر انجام دیا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر حکومت کے خلاف مہم میں اس کا سہارا کیوں نہیں لیا جارہا؟ سوال بہت ہیں، جواب نہیں مل پا رہے۔
قائداعظم ہوں یا مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ ہوں یا ماؤزے تنگ، نیلسن منڈیلا ہوں یا مہاتیر محمد، کسی نے بھی اختیار ملتے ہی نہ تو تکبرانہ انداز اپنایا نہ ہی فخر و غرور کا دامن تھاما۔ سب سے بہترین مثال آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہے جنہوں نے فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان کیا۔ کیا مکہ کے لوگ برائیوں میں نہیں تھے؟ بالکل تھے۔ لیکن کردار کی عظمت سے ان کو اچھائی کی جانب لایا گیا۔ عمران خان نے چوروں کے خلاف کارروائی کا واویلا کیا تو کیا لیکن کیا خود اس گند سے دور رہے؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کی مثالیں دی گئیں لیکن حقیقی معنوں میں اپنوں کو ایسے نوازا گیا کہ قصے اب جو کھلنا شروع ہوئے ہیں تو دہائی یہی ہے کہ خدا ایسی تبدیلی سے بچائے۔
نوٹ: اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post A Comment:
0 comments: